کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 242
’’ عن عبید بن السباق أن زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ قال أرسل إلی أبوبکر مقتل أھل الیمامۃ فإذا عمر بن الخطاب عندہ قال أبوبکر رضی اللّٰہ عنہ إن عمر أتانی فقال إن القتل قد استحر یوم الیمامۃ بقراء القرآن وإنی أخشی أن یستحر القتل بالقراء بالمواطن فیذھب کثیر من القرآن وإنی أری أن تأمر بجمع القرآن قلت لعمر کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال عمر ھذا واللّٰہ خیر فلم یزل عمر یراجعنی حتی شرح اللّٰہ صدری لذلک ورأیت فی ذلک الذی رأی عمر قال زید قال أبوبکر إنک رجل شاب عاقل لانتھمک وقد کنت تکتب الوحی لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتتبع القرآن فاجمعہ فواللّٰہ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علی مما أمرنی بہ من جمع القرآن قلت کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ھو واللّٰہ خیر فلم یزل أبوبکر یراجعنی حتی شرح اللّٰہ صدری للذی شرح لہ صدر أبی بکر وعمر رضی اللّٰہ عنھما فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال حتی وجدت آخر سورۃ التوبۃ مع أبی خزیمۃ الأنصاری لم أجدھا مع أحد غیرہ﴿ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ﴾حتی خاتمۃ براء ۃ فکانت الصحف عند أبی بکر حتی توفاہ اللّٰہ ثم عند عمر حیاتہ ثم عند حفصۃ بنت عمر رضی اللّٰہ عنہ۔ ‘‘[1] ’’حضرت عبید بن سباق سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اہل یمامہ کی شہادت کے حوالے سے بلوا بھیجا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بے شک عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں : جنگ یمامہ میں قراء کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہوگئی ہے اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح شہداء کی شہادت ہو اور قرآن کا اکثر حصہ اس طرح سے ضائع ہو جائے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمع قرآن کا حکم دیں۔ میں نے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ وہ کام کیسے کریں گے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ کام خیرہی خیر ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بار بار یہی بات کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیااور میری رائے بھی اس مسئلے میں وہی ہو گئی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ایک نوجوان اور سمجھ دار آدمی ہو‘ ہم تمہارے اندر کوئی عیب بھی نہیں دیکھتے اور تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے منتقل کرنے کاحکم دیتے تو یہ مجھ پر جمع ِ قرآن کے بارے میں ان کی طرف سے دیے گئے حکم سے زیادہ بھاری نہ تھا۔ میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات وہ کام کیسے کر لیں گے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا۔ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم! اس کام میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ پس حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ مسلسل مجھ سے اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرے سینے کوبھی کھول دیاکہ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت أبوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے سینے کو کھول دیا تھا۔ پس میں نے قرآن کوتلاش کرتے ہوئے‘ کھجور کی شاخوں ‘ چوڑے پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کیایہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کی آخری آیت ﴿ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ﴾حضرت أبو خزیمہ أنصاری رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں پائی۔ پس یہ صحیفے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی وفات تک رہے اور ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے اور ان کے بعد أم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ ‘‘ أمور حرب میں باہمی مشاورت حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں أمرائے لشکر کو دوسرے ماہرین فن سے مشورہ کا پابند بناتے تھے تاکہ باہمی مشاورت سے جنگی أمور طے ہوں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
[1] صحیح بخاری‘ کتاب الأحکام‘ باب یستحب للکاتب أن یکون أمیناً عاقلا (۴۷۰۱)‘ ۴؍ ۱۹۰۷۔