کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 241
أبوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ کہا گیا‘ ایسا کیوں ہوتا؟انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے أسامہ بن زید کو سات سوصحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ شام کی طرف بھیجا۔ پس جب وہ ’ذو خشب‘ نامی مقام پر پہنچے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی گئی اور مدینہ کے ارد گرد اہل عرب دین سے پھر گئے۔ اس دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:ان مسائل نے ہمارے لشکروں کی توجہ روم کی طرف پھیر دی ہے حالانکہ مدینہ کے اردگرد کے لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ پس حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اگر(مدینے میں )کتے أزواج مطہرات کی ٹانگیں کھینچ کر گھسیٹتے پھریں تو پھر بھی میں اس لشکر کو واپس نہیں لوٹاؤں گا کہ جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ ‘‘
مرتدین کے ساتھ قتال کے بارے میں اجتماعی مشاورت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی عرب کے بہت سے قبائل دین اسلا م کے بعض بنیادی احکامات سے پھر گئے جیسا کہ بعض قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کا ارادہ ظاہر کیا تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں اس سے منع کیا‘ لیکن بالآخر ان سب کا مرتدین سے قتال پر اتفاق ہو گیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں۔
’’ أن أباھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال لما توفی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان أبوبکر وکفر من کفر من العرب فقال عمر رضی اللّٰہ عنہ کیف تقاتل الناس وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لاإلہ إلا اللّٰہ فمن قالھا فقد عصم منی مالہ ونفسہ إلا بحقہ وحسابہ علی اللّٰہ فقال واللّٰہ لأقاتلن من فرق بین الصلاۃ والزکاۃ فإن الزکاۃ حق المال واللّٰہ لو منعونی عناقاً کانوا یؤدونھا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لقاتلتھم علی منعھا قال عمر رضی اللّٰہ عنہ فواللّٰہ ما ھو إلا أن قد شرح اللّٰہ صدر أبی بکر رضی اللّٰہ عنہ فعرفت أنہ الحق۔ ‘‘[1]
’’حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے اور اہل عرب میں سے کئی ایک نے کفر کیا۔ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کا ارادہ کیا)تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ے کہا: آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کریں گے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی۔ : مجھے یہ حکم دیا گیاہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پس جس نے یہ گواہی دے دی تو اس نے مجھ سے اپنا مال اور جان بچالی سوائے کلمہ کے حق کے‘ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے لازماًجنگ کروں گاجنہوں نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیاہے۔ بے شک زکوۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھ سے ایک ایسی رسی بھی روک لی جسے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اداکرتے تھے تو میں لازماً اس کے روکنے پر ان سے قتال کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اس کے لیے کھول دیا تھا۔ پس میں نے بھی یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔ ‘‘
حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جمع قرآن کے بارے میں اجتماعی اجتہاد
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت قرآن مجید صحابہ رضی اللہ عنہم کے سینوں میں تو موجود تھا لیکن ایک جگہ کتابی شکل میں محفوظ نہ تھا۔ البتہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس اس کے مختلف حصے کھجور کی شاخوں ‘ پٹھوں ‘ چمڑوں اور پتھروں پر لکھا ہوا تھا۔ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ کے دوران بہت سے قراء صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے‘ جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوتے رہے تو مسلمانوں میں سے قرآن اٹھ جائے گا۔ پس اس سلسلے میں انہوں نے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا اور قرآن کو کتابی شکل میں ایک جگہ جمع کرنے کی تجویز پیش کی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
[1] صحیح بخاری‘ کتاب الزکوۃ‘ باب وجوب الزکاۃ (۱۳۳۵)‘ ۲؍ ۵۰۷۔