کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 240
وبایعہ الناس۔ ‘‘[1] ’’أم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ ۔ ۔ اور أنصار سقیفہ بنو ساعدہ میں حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اکھٹے ہوئے۔ انہوں نے کہا: ایک امیر ہم(یعنی أنصار)میں سے ہو گا اور ایک امیر تم(یعنی مہاجرین)میں سے‘ پس حضرت أبوبکر‘ عمر اور أبوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی طرف گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بات شروع کی تو حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو خاموش کروادیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے : اللہ کی قسم! میں نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ میں نے اس وقت خطاب کے لیے ایک ایسی عبارت تیار کرلی تھی‘جس کا کہنا مجھے بھلا محسوس ہو رہا تھا اور مجھے یہ اندیشہ تھا کہ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ وہ کلام نہ کریں گے۔ پھر حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت ہی بلیغ کلام کیااور اس کلام میں یہ بھی کہا: ہم امراء ہیں اور تم وزراء‘ پس حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ‘ اللہ کی قسم! ہم اس پر راضی نہ ہوں گے‘ ایک امیرتم میں سے ہو گا اور ایک ہم میں سے‘ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ‘ امیر ہم میں سے ہی ہوگا اور تم وزیر ہو گے۔ قریش اہل عرب میں مقام کے اعتبار سے سب سے بلند اور حسب و نسب کے اعتبار سے سب سے افضل ہیں۔ پس اے لوگو ! عمر رضی اللہ عنہ یا أبوعبیدۃ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو۔ اس پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تو آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ ہمارے سردار ‘ ہم میں سے سب سے بہتراور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے زیادہ محبوب تھے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عام صحابہ نے حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ ‘‘ حضرت أسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کے بارے میں اجتماعی مشورہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی بعض مرتد قبائل کی اصلاح کے لیے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا تھا۔ یہ لشکر ابھی رستے میں ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ اس لشکر کو واپس بلا لیں کیونکہ مدینہ میں اس کی ضرورت زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ ایک طرف تو مرتدین کی یہ جماعت تھی‘ دوسری طرف مانعین زکوۃ تھے۔ لہٰذا اس صورت حال میں خانہ جنگی کے امکانات بہت بڑھ گئے تھے‘ اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کی حکومت کو ان حالات میں کو ئی خارجی محاذ کھولنے کی بجائے داخلی استحکام پر مکمل توجہ دینی چاہیے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’أخبرنا أبو عبد اللّٰہ الحافظ أنا أبو العباس محمد بن یعقوب ثنا محمد بن علی المیمونی ثنا الفریابی ثنا عباد بن کثیر عن أبی الزناد عن الأعرج عن أبی ھریرۃ قال: والذی لا إلہ إلا ھو لولا أن أبا بکر استخلف ما عبد اللّٰہ ثم قال الثانیۃ ثم قال الثالثۃ فقیل لہ: مہ یا أبا ھریرۃ؟ فقال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجہ أسامۃ بن زید فی سبعمائۃ إلی الشام فلما نزل بذی خشب قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وارتدت العرب حول المدینۃ واجتمع إلیہ أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالوا: یا أبابکر رد ھؤلاء توجہ ھؤلاء إلی الروم وقد ارتدت العرب حول المدینۃ ؟ فقال: والذی لا إلہ غیرہ لو جرت الکلاب بأرجل أزواج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما رددت جیشا وجھہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ‘‘[2] ’’(حافظ أبوبکر بیہقی رحمہ اللہ نے کہا)ہمیں أبو عبداللہ الحافظ نے خبردی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبو العباس محمد بن یعقوب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن علی میمونی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں فریابی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عباد بن کثیر نے أبو زناد سے‘ انہوں نے أعرج سے‘ انہوں نے أبو ہریر ۃ رضی اللہ عنہ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا:اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘ اگر حضرت أبوبکر خلیفہ رضی اللہ عنہ نہ بنتے توکوئی بھی اللہ کی عبادت کرنے والا نہ ہوتا۔ حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے اس بات کو دوسری اور تیسری مرتبہ دہرایا۔ یہاں تک کہ حضرت
[1] صحیح بخاری‘ کتاب المناقب‘ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلا (۳۴۶۷)‘ ۳؍ ۱۳۴۱۔ [2] الاعتقاد والھدایۃ إلی سبیل الرشاد‘ باب تنبیۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی خلافۃ أبی بکر (۳۲۳)‘ ۱؍ ۳۴۵۔