کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 239
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ممکن حد تک ایک مسئلے کا حل قرآن وسنت میں تلاش کرتے تھے اور اگر نہ ملتا تو پھر اجتہاد کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اجتہادی منہج کی وضاحت کرتے ہوئے ابن أبی یزید فرماتے ہیں : ’’ أخبرنا أبو عبد اللّٰہ الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن یعقوب أنبأ محمد بن عبد اللّٰہ بن عبد الحکم أنبأ ابن وھب قال سمعت سفیان یحدث عن عبید اللّٰہ بن أبی یزید قال سمعت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنھما إذ اسئل عن شیٔ ھوفی کتاب اللّٰہ قال بہ و إذا لم یکن فی کتاب اللّٰہ و قالہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال بہ و إن لم یکن فی کتاب اللّٰہ و لم یقلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و قالہ أبو بکر و عمر رضی اللّٰہ عنھما قال بہ و إلا اجتھد رأیہ۔ ‘‘[1] ’’ہمیں أبو عبد اللہ الحافظ نے خبر دی ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبو العباس محمد بن یعقوب نے بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم نے خبر دی ہے۔ ‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ابن وہب نے خبر دی ہے اور انہوں نے کہا‘ میں نے سفیان سے سنا کہ وہ عبید اللہ بن أبی یزید سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سناہے کہ جب ان سے کسی مسئلے کے بارے سوال ہوتا تھا اور اس کا جواب اگر کتاب اللہ میں (واضح طور پر)ہوتا تو وہ اس کے مطابق جواب دے دیتے تھے اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہوتا تو اس کے بارے میں کوئی حدیث(واضح)ہوتی تو وہ اس کے مطابق جواب دیتے اور اگر وہ مسئلہ قرآن و حدیث میں (صریحاً)نہ ہوتاجبکہ اس کے بارے میں حضرت أبو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے کچھ مروی ہوتاتو اس کے مطابق رائے کا اظہار کرتے اور اس کے بعد تو اپنی رائے بنانے میں (قرآن و سنت کی گہرائی و وسعتوں میں )انتہائی کوشش لگادیتے۔ ‘‘ دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں اجتماعی اجتہاد خلافت راشدہ میں اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی انفرادی حیثیت میں اجتہاد کرتے تھے لیکن بہت سے مسائل ایسے بھی تھے کہ جن کی نزاکت کے پیش نظر اجتماعی اجتہاد و مشاورت کے ذریعے ان کاحل نکالنے کی کوشش کی گئی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ باہمی مشورے اور تبادلہ خیال کے نتیجے میں ایک رائے تک پہنچنے کا طرز عمل خلافت راشدہ میں بہت نمایاں رہا ہے۔ اس عرصے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جن اہم مسائل کو باہمی مشورے سے حل کیا گیا‘ ان میں چند ایک درج ذیل ہیں : خلیفہ أول کی تقرری میں باہمی مشاورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد امیر و خلیفہ کی تقرری کا مسئلہ سامنے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک رات بھی کسی امیر یا نظم کے بغیر نہیں گزارنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انصار و مہاجرین میں باہمی مشاورت ہوئی اور حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ کو باہمی رضامندی سے خلیفہ مقرر کر لیا گیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہے: ’’عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مات۔ ۔ ۔ واجتمعت الأنصار إلی سعد بن عبادۃ فی سقیفۃ بنی ساعدۃ فقالوا منا أمیر ومنکم أمیر فذھب إلیھم أبوبکر وعمر بن الخطاب وأبو عبیدۃ بن الجراح فذھب عمر یتکلم فأسکتہ أبوبکر وکان عمر یقول واللّٰہ ما أردت بذلک إلا أنی قد ھیأت کلاما قد أعجبنی خشیت أن لا یبلغہ أبوبکر ثم تکلم أبوبکرفتکلم الناس أبلغ الناس فقال فی کلامہ نحن الأمراء وأنتم الوزراء فقال حباب بن المنذر لا واللّٰہ لا نفعل منا أمیر ومنکم أمیر فقال أبوبکر لا ولکنا الأمراء وأنتم الوزراء ھم أوسط العرب دارا وأعربھم أحساباً فبایعوا عمر أو عبیدۃ بن الجراح فقال عمر بل نبایعک أنت فأنت سیدنا وخیرنا وأحبنا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخذ عمر بیدہ فبایعہ
[1] السنن الکبری للبیھقی‘ کتاب آداب القاضی‘ باب ما یقضی بہ القاضی ویفتی بہ المفتی (۲۰۱۳۳)‘ ۱۰؍ ۱۱۵۔