کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 238
مجالس کا انعقاد بھی کرتے تھے جن سے ان کے سینکڑوں شاگرد مستفید ہوتے تھے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے شہروں کے مفتی ہوتے تھے اورنئے پیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنی اجتہادی آراء بھی پیش کرتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان اجتہادات کو بہت سے محدثین نے اپنی کتب احادیث میں جمع کیاہے۔ صحابہ کا یہ اجتہاد عموماً انفرادی نوعیت کا ہوتا تھا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’حدثنا محمود بن غیلان حدثنا زید بن الحباب حدثنا سفیان عن منصور عن إبراہیم عن علقمۃ عن ابن مسعود أنہ سئل عن رجل تزوج امرأۃ ولم یفرض لھا صداقاً ولم یدخل بھا حتی مات فقال ابن مسعود لھا مثل صداق نسائھا لا وکس ولا شطط وعلیھا العدۃ ولھا المیراث فقام معقل بن سنان الأشجعی فقال قضی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی بروع بنت واشق امرأۃ منا مثل الذی قضیت ففرح بھا ابن مسعود۔ ‘‘[1] ’’ہمیں محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں زید بن حباب نے بیان کیا‘ انہوں نہ کہا‘ ہمیں سفیان نے منصور سے‘ انہوں نے ابراہیم سے‘ انہوں نے علقمہ سے‘ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیاہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مردکے بارے سوال ہوا کہ جس نے ایک عورت سے شادی کی تھی لیکن اس کا حق مہر مقرر نہ کیاتھا اور نہ ہی اس سے مباشرت کی تھی‘ یہاں تک کہ وہ اس سے پہلے ہی مرگیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت کے لیے مہر مثل ہو گا‘ نہ اس سے کم ہو گا اور نہ زیادہ‘ اور وہ عورت عدت بھی گزارے گی اور میراث بھی پائے گی۔ پس معقل بن سنان أشجعی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکرکہنے لگے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ کیاتھا جیسا کہ آپ نے اس عورت کے بارے میں کیاہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سن کر خوش ہو گئے۔ ‘‘ علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو’صحیح‘ کہا ہے۔ [2] اسی طرح دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اجتہاد کرتے تھے اور اگر ان کو اپنے کسی اجتہادمیں کوئی غلطی محسوس ہوتی تو اس سے رجوع بھی کر لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’حدثنا ابن مبارک عن معمر عن سماک بن الفضل قال: سمعت وھباً یحدث عن الحکم بن مسعود قال: شھدت عمر أشرک الإخوۃ من الأب والأم مع الإخوۃ من الأم فی الثلث فقال لہ رجل: قد قضیت فی ھذا عام الأول بغیر ھذا قال کیف قضیت؟ قال: جعلتہ للإخوۃ للأم و لم تجعل للإخوۃ من الأب والأم شیئا قال: ذلک ما قضینا وھذا علی ما نقضی۔ ‘‘[3] ’’ہمیں ابن مبارک نے معمرسے بیان کیا‘ انہوں نے سماک بن فضل سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا: میں نے وہب کو حکم بن مسعود سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سناہے کہ انہوں نے کہا: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا جبکہ انہوں نے عینی(حقیقی)بھائیوں کو أخیافی(ماں شریک)بھائیوں کے ساتھ وراثت میں ایک تہائی حصے میں شریک کیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پچھلے سال اس مسئلے میں اس کے برعکس فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس وقت کیسے فیصلہ کیاتھا؟ اس شخص نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حصہ اخیافی بھائیوں کو دے دیا تھا جبکہ عینی بھائیوں کو کچھ بھی نہ دیا تھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ اس وقت کا فیصلہ تھا اور یہ وہ اجتہادہے جوہم اب کر رہے ہیں۔ ‘‘
[1] سنن الترمذی‘ کتا ب النکاح ‘ باب ماجاء فی الرجل یتزوج المرأۃ (۱۱۴۵)‘ ۳؍۴۵۰)۔ [2] إرواء الغلیل: (۱۹۳۹)‘ ۶؍ ۳۵۸۔ [3] مصنف ابن أبی شیبۃ‘ کتاب الفرائض‘ باب فی زوج وأم وإخوۃ وأخوات للأب وأم وإخوۃ لأم (۳۱۰۹۷)‘ ۶؍ ۲۴۷۔