کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 237
ہوگئی۔ پس اس شخص نے تھوکنا شروع کیا اور وہ سورۃ فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ پس گویا کہ کوئی گرہ کھل گئی ہواور وہ سردار چلنے پھرنے لگااور ایسا ہو گیا جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ راوی کہتے ہیں : ان لوگوں نے صحابہ کو وہ قیمت(تقریباً تیس بکریاں )دے دی جو ان کے درمیان طے پائی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک نے کہا: اس کو تقسیم کر لیتے ہیں۔ اس پر جو دم کرنے والا صحابی رضی اللہ عنہ تھا‘ اس نے کہا: ایسا مت کرو! یہاں تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتے ہیں اوران کے سامنے اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں ‘ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ پس وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے اس واقعے کا تذکرہ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ جھاڑ پھونک بھی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ اس کو تقسیم کر لو اور اس میں میرا حصہ بھی مقرر کرو۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے مسکرا پڑے۔ ‘‘ غسل میت کے بارے صحابیات رضی اللہ عنہن کا باہمی مشورہ آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی جب وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی عورتوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ تین‘ پانچ‘ سات یا اس سے زیادہ دفعہ‘ جس قدر وہ ضرورت محسوس کریں ‘ غسل دے دیں۔ یعنی عدد غسل کے تعین کااختیار صحابیات رضی اللہ عنہن کی باہمی رائے پر چھوڑ دیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’عن أم عطیۃ الأنصاریۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت دخل علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین توفیت ابنتہ فقال اغسلنھا ثلاثاً أو خمساً أو أکثر من ذلک إن رأیتن ذلک بماء و سدر واجعلن فی الآخرۃ کافورا أو شیئاً من کافور فإذا فرغتن فآذننی فلما فرغنا آذناہ فأعطانا حقوہ فقال أشعرنھا إیاہ تعنی إزارہ۔ ‘‘[1] ’’حضرت أم عطیہr سے روایت ہے: جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وفات ہو ئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی عورتوں کے پاس آئے اور فرمایا: ان کوتین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ دفعہ‘ اگر تم اس کی ضرورت محسوس کرو ‘ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے دو اور آخری مرتبہ پانی میں کافور یا کوئی اور خوشبو ملا لینا۔ پس جب تم اس سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتلانا۔ پس جب ہم غسل سے فارغ ہو گئیں تو ہم نے آپ کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا تہبنددیا اور کہا : اس کو اس کے جسم کے ساتھ لگا دو۔ ‘‘ دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں انفرادی اجتہاد صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں حضرت عمر بن خطاب‘ حضرت علی بن أبی طالب‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ حضرت عائشہ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس‘ حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم فقہائے صحابہ میں شمار ہوتے تھے اور ان سات صحابہ رضی اللہ عنہم سے بکثرت فتاوی اور اجتہادات نقل ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض صحابہ ایسے بھی ہیں ‘جوفقیہ توتھے لیکن ان سے مروی اجتہادات یا فتاوی نسبتاً کم ہیں۔ ان میں حضرت أبو بکر صدیق‘ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت أبو موسی الأشعری ‘حضرت معاذ بن جبل ‘حضرت عبد اللہ بن زبیر ‘ حضرت جابر بن عبد اللہ ‘ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ‘ حضرت أبو سعید خدری اور حضرت أم سلمہ رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پے در پے فتوحات کے نتیجے میں خلافت اسلامیہ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا۔ نئے مفتوحہ علاقوں میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے اساتذہ کا انتظام کیا جائے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کی طر ف حضرت معاذ بن جبل اور کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کو مبعوث کیا۔ خلفائے راشدین کے دور خلافت میں مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ‘ مدینہ منورہ میں حضرت زید بن ثابت ‘ کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود‘ بصرہ میں حضرت أبو موسی الأشعری ‘شام میں حضرت معاذ بن جبل اور مصر میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم بطور مفتی مقرر تھے۔ ان شہروں میں عامۃ الناس اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ صحابہ رضی اللہ عنہم باقاعدہ ایسی علمی
[1] صحیح بخاری‘کتاب الجنائز‘ باب غسل المیت و وضوئہ بالماء والسدر (۱۱۹۵)‘ ۱؍ ۴۲۲۔