کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 236
ذلک فذکر للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منھم۔ ‘‘[1]
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب ہم جنگ أحزاب سے فارغ ہو کر لوٹے تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا:تم میں سے کوئی شخص بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ کے علاقے میں ‘ پس بعض صحابہ کو رستے میں ہی نماز کے وقت نے پا لیا۔ ان میں سے بعض نے کہا ہم اس وقت تک نماز نہ پڑھیں گے جب تک کہ بنو قریظہ کی بستیوں میں نہ پہنچ جائیں۔ جب کہ صحابہ ہی کے ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ بھی تھی کہ ہم نماز رستے میں ہی پڑھ لیں گے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ نہیں تھا(کہ ہم عصر کی نماز لیٹ کریں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود عصر سے پہلے بنو قریظہ کی بستیوں میں پہنچنے کاحکم جاری کرنا تھا۔ پس بعض نے نماز پڑھ لی اور بعض نے مؤخر کر دی)۔ پس دونوں نے اس بات کا تذکرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو بھی سر زنش نہ کی۔ ‘‘
أجرت قرآن کے بارے صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجتماعی اجتہاد
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کسی سفر پر نکلی ہوئی تھی کہ ایک قبیلے کے پاس انہوں نے پڑاؤ ڈالااور ان سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اسی دوران اس قبیلے کے سردار کو ایک زہریلے سانپ نے ڈس لیا تو ان صحابہ میں سے ایک نے سورۃ فاتحہ کی جھاڑ پھونک کی اور اس کے بدلے اس کی اجرت بھی حاصل کی اور اس أجرت کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے باہم تقسیم کر لیا۔ اس واقعے کے بارے میں ایک راویت کے الفاظ ہیں :
’’عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال انطلق نفر من أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی سفرۃ سافروھا حتی نزلوا علی حی من أحیاء العرب فاستضافوھم فأبوا أن یضیفوھم فلدغ سید ذلک الحی فسعوا لہ بکل شیء لا ینفعہ شیء فقال بعضھم لو أتیتم ھؤلاء الرھط الذین نزلوا لعلہ أن یکون عند بعضھم شیء فأتوھم فقالوا یا أیھا الرھط إن سیدنا لدغ وسعینا لہ بکل شیء لا ینفعہ فھل عند أحد منکم من شیء فقال بعضھم نعم واللّٰہ إنی لأرقی و لکن و اللّٰہ لقد استضفناکم فلم تضیفونا فما أنا براق لکم حتی تجعلوا لنا جعلاً فصالحوھم علی قطیع من الغنم فانطلق یتفل علیہ ویقرأ الحمد ﷲ رب العلمین فکأنما نشط من عقال فانطلق یمشی وما بہ قلبۃ قال فأوفوھم جعلھم الذی صالحوھم علیہ فقال بعضھم اقسموا فقال الذی رقی لا تفعلوا حتی تأتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فنذکر لہ الذی کان فننظر ما یأمرنا فقدموا علی رسول اللّٰہ فذکروا لہ فقال وما یدریک أنھا رقیۃ ثم قال قد أصبتم اقسموا واضربوا لی معکم سھما فضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ‘‘[2]
’’حضرت أبو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے راویت ہے‘ انہوں نے کہا: أصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک جماعت ایک سفرمیں نکلی یہاں تک کہ انہوں نے عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلہ میں پڑاؤ ڈالا اور ان سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا۔ اس قبیلے کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکارکردیا۔ پس اس قبیلے کے سردار کو ایک سانپ نے ڈس لیا۔ انہوں نے ہر طریقے سے اس کا علاج کیالیکن اسے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ان میں سے ایک کہنے لگا‘ آؤ! اس جماعت کے پاس جاتے ہیں جو ہمارے قریب ہی قیام پذیرہے شاید ان میں سے کسی کے پاس اس کا کوئی علاج ہو۔ پس وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس جماعت کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کا علاج کیا ہے لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تم میں سے کسی کے پاس اس کا کوئی علاج ہے۔ تو ان میں سے ایک شخص نے کہا:ہاں ! اللہ کی قسم ! میں جھاڑ پھونک کر سکتا ہوں لیکن ہم نے تم سے مہمان نوازی طلب کی تھی‘ پس تم نے ہماری مہمان نوازی نہ کی۔ پس میں بھی اس وقت تک جھاڑ پھونک نہ کروں گاجب تک تم اس کی قیمت مقرر نہ کرو۔ پس ان لوگوں کی بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت
[1] صحیح بخاری‘ أبواب صلاۃ الخوف‘ باب صلاۃ الطالب والمطلوب راکباً وإیماء (۹۰۴)‘ ۱؍ ۳۲۱۔
[2] صحیح بخاری‘ کتاب الإجارۃ‘ باب ما یعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب (۲۱۵۶)‘ ۲؍ ۷۹۵۔