کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 235
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی گورنری کے بارے میں باہمی مشاورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنا چاہا تو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک حدیث میں ہے: ’’حدثنا الحسن بن العباس الرازی وعبد الرحمن بن سلم والحسین بن إسحاق التستری قالوا: حدثنا سھل بن عثمان حدثنا أبو یحی الحمانی عن أبی العطوف عن الوضین بن عطاء عن عبادۃ بن نسی عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما أراد أن یسرح معاذ إلی الیمن استشار ناساً من أصحابہ فیھم أبوبکر وعمر وعثمان وعلی وطلحۃ والزبیر وأسید بن حضیر فاستشارھم فقال أبو بکر لولا أنک استشرتنا ما تکلمنا فقال إنی فیما لم یوحی إلی کأحدکم قال: فتکلم القوم فتکلم کل انسان برأیہ فقال ما تری یا معاذ قال أری ما قال أبو بکر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن اللّٰہ عز و جل یکرہ فوق سمائہ أن یخطیٔ أبو بکر رضی اللّٰہ عنہ۔ ‘‘[1] ’’ہمیں حسن بن عباس رازی ‘ عبد الرحمن بن سلم اور حسین بن اسحاق تستری نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا‘ہمیں سہل بن عثمان نے بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا‘ہمیں أبویحی حمانی نے أبو عطوف سے‘ انہوں نے وضین بن عطاء سے‘ انہوں نے عبادہ بن نسی سے‘ انہوں نے عبدالرحمن بن غنم سے‘ اور انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف(گورنر بنا کر)بھیجنے کاارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے حضرت أبوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ أسید بن حضیر رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ ہم سے مشورہ طلب نہ بھی کرتے تو پھر بھی ہم کلام نہ کرتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن مسائل میں وحی نازل نہ ہوتی ہو ‘ ان میں ‘ مَیں تم جیسے ایک فرد کی طرح ہوں۔ راوی کہتے ہیں : پھر لوگوں نے مشورہ دیناشروع کیا اور ہر شخص نے اپنی رائے بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے کہا: اے معاذ!تیری کیارائے ہے؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری وہی رائے ہے جو أبوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آسمانوں پر اس بات کو ناپسندکرتے ہیں کہ أبوبکر رضی اللہ عنہ خطا کریں۔ ‘‘ امام نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ وأبو العطوف لم أعرفہ وبقیۃ رجالہ ثقات وفی بعضھم خلاف۔ ‘‘[2] ’’أبو العطوف کو میں نہیں جانتا اور اس کے بقیہ راوی ثقہ ہیں اور ان میں بعض کی ثقاہت کے بارے میں اختلاف بھی ہے۔ ‘‘ یہ تواجتماعی اجتہاد کی وہ مثالیں تھیں کہ جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی براہ راست شریک تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض اوقات جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو صحابہ بھی آپس میں باہمی مشاورت سے کوئی رائے طے کر لیتے تھے‘جیسا کہ ذیل میں ہم ان مثالوں کو بیان کر رہے ہیں : غزوہ خندق کے موقع پر عصر کی نماز میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف غزوہ خندق کے معرکے سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیاکہ وہ یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کا محاصرہ کریں کیونکہ انہوں نے اس جنگ کے دوران معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’عن ابن عمر قال قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لنا لما رجع من الأحزاب لا یصلین أحد العصر إلا فی بنی قریظۃ فأدرک بعضھم العصر فی الطریق فقال بعضھم لا نصلی حتی نأتیھا وقال بعضھم بل نصلی لم یرد منا
[1] المعجم الکبیر للطبرانی‘ باب بقیۃ المیم‘ من إسمہ معاذ (۱۲۴)‘ ۲۰؍ ۶۷۔ [2] مجمع الزوائد: (۱۴۳۲۷)‘ ۹؍ ۲۸۔