کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 233
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کواس کے مطابق مشورہ دیا جو وہ أم المؤمنین کی برأت کے حوالے سے رائے رکھتے تھے اور ان کے بارے جو ان کا ذاتی علم تھا۔ حضرت أسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا:(اے اللہ کے رسول!)میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال میں سوائے خیرکے اور کچھ نہیں جانتا۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ نے اس معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ عورتیں ان کے علاوہ بھی بہت ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ بریرۃ r( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی)سے پوچھ لیں وہ بہتر طور پربتا سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرۃ rکو بلابھیجا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے بریرۃ! کیا تونے أم المؤمنین میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تجھے شک میں ڈالے۔ حضرت بریرۃ rنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:قسم ہے اس ذات کی‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا‘ میں نے ان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں دیکھی ہے سوائے اس کے کہ وہ عمر میں چھوٹی ہیں ‘ اپنے گھر والوں کے آٹے کی حفاظت کرتے کرتے سو جاتی ہیں اور مرغی آ کر اس کوکھا جاتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن أبی سے عذر طلب کیا اور کہا: اے مسلمانو کی جماعت!کون مجھے اس شخص کی طرف سے عذر پیش کرے گاجس نے میرے اہل و عیال کے حوالے سے مجھے اذیت پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل و عیال کے بارے میں سوائے خیرکے اور کچھ نہیں جانتا۔ اور انہوں نے ایک شخص کا تذکرہ کیا کہ جس کے بارے میں ‘ مَیں سوائے بھلائی کے اورکوئی بات نہیں پاتا۔ اور وہ صاحب صرف میری موجودگی ہی میں میرے اہل و عیال پر داخل ہوتے ہیں۔ ‘‘
صلح حدیبیہ کے موقع پر اجتماعی مشورہ
صلح حدیبیہ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سے متوقع جنگ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشور ہ کیا تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ أخبرنا محمد بن الحسن بن قتیبۃ قال حدثنا محمد بن المتوکل بن أبی السری قال حدثنا عبد الرزاق قال أخبرنا معمر عن الزھری قال أخبرنی عروۃ بن زبیر عن المسور بن مخرمۃ ومروان بن الحکم یصدق کل واحد منھما حدیثہ حدیث صاحبہ‘ قالا: خرج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم زمن الحدیبیۃ فی بضع عشرۃ مائۃ من أصحابہ‘ حتی إذا کانوا بذی الحلیفۃ ‘ قلد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأشعر‘ ثم أحرم بالعمرۃ وبعث بین یدیہ عیناً لہ رجلاً من خزاعۃ یجیئہ‘ بخبر قریش‘ وسار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی إذا کان بغدیر الأشطاط ‘ قریباً من عسفان‘ أتاہ عینہ الخزاعی‘ فقال: إنی ترکت کعب بن لؤی‘ وعامر بن لؤی ‘ قد جمعوا لک الأحابیش‘ وجمعوا لک جموعاً کثیرۃ وھم مقاتلوک وصادوک‘ عن البیت الحرام‘ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : أشیروا علی أترون أن نمیل إلی ذراری ھؤلاء الذین أعانوھم فنصیبھم ‘ فإن قعدوا قعدوا موتورین محزونین‘ وإن نجوا یکونوا عنقاً قطعھا اللّٰہ أم ترون‘ أن نؤم البیت‘ فمن صدنا عنہ قاتلناہ؟ فقال أبوبکر الصدیق رضوان اللّٰہ علیہ: اللّٰہ ورسولہ أعلم یا نبی اﷲ‘ إنما جئنا معتمرین ولم نجیء لقتال أحد ولکن من حال بیننا وبین البیت قاتلناہ‘ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فروحوا إذا قال الزھری فی حدیثہ ‘ وکان أبو ھریرۃ یقول: ما رأیت أحدا أکثر مشاورۃ لأصحابہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ ‘‘[1]
’’ہمیں محمدبن حسن بن قتیبہ نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ مجھے محمدبن متوکل بن أبی سری نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ مجھے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ مجھے معمرنے زہری سے خبر دی ہے‘ انہوں نے کہا‘ مجھے عروہ بن زبیر نے مسورہ بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے خبر دی ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر کی تصدیق کرتاہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سو سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نکلے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈالا اور اس کونشان لگایا۔ پھر عمرے کے لیے احرام باندھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آگے آگے بنو خزاعہ کے ایک شخص کو بطور جاسوس بھیجاتا کہ وہ آپ کو قریش کی خبر
[1] صحیح ابن حبان‘ کتاب السیر‘ باب الموادعۃ والمھادنۃ (۴۸۷۲)‘ ۱۱؍ ۲۱۶۔