کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 232
حصن بن حذیفہ اور حارث بن عوف بن أبی حارثہ کی طرف اپنا ایک آدمی بھیجا تا کہ وہ مدینہ کے ایک تہائی پھل کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لیں اور کفار کا ساتھ چھوڑ کراہل مدینہ سے واپس چلے جائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان صلح کا معاہدہ تیار ہو گیا اور انہوں نے ایک تحریر بھی تیار کر لی لیکن ابھی تک دونوں طرف سے دستخط ہونے باقی تھے۔ ابھی تک صلح کے بارے میں کوئی پختہ عزم کا اظہار دونوں طرف سے نہیں ہوا تھا لیکن اس کام کے لیے باہمی رضامندی کا اظہار ہو رہاتھا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کرنے کا ارادہ فرمالیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہما کوبلا بھیجااور ان کے سامنے ساری بات رکھ دی اور ان سے اس بارے مشورہ بھی طلب کیا۔ دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا جو ہمیں پسند ہے وہ ہم کر سکتے ہیں یا یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس کا اللہ نے آپ کو حکم دے دیا ہے اور ہمارے لیے اس پر عمل لازم ہے یا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے سے ہمارے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ ایک ایسا معاملہ ہے جومیں صرف تمہارے لیے کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں یہ صرف اس لیے چاہتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اہل عرب یکجا ہو کر تم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور انہوں نے ہر جانب سے تمہارے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم سے ان کفار کی اس شان و شوکت کو ایک وقت تک کے لیے توڑ دوں۔ اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ شر ک کرتے تھے اور بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ہم اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت نہ کرتے تھے اور نہ ہی اس کو پہچانتے تھے۔ یہ لوگ اس وقت بھی یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ مدینہ سے ایک کھجور بھی حاصل کر سکیں سوائے مہمان نوازی کے یا خرید و فروخت کے‘ کیا پس جب اللہ تعالیٰ نے ہم پر اسلام کے ذریعے کرم فرمایا اور ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عزت بخشی تو کیا ہم ان کو اپنے مال دے دیں۔ اللہ کی قسم! ہمیں اس کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! ہم انہیں سوائے تلوار کے کچھ نہ دیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اب یہ تمہارا اور ان کامعاملہ ہے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے معاہدے والے أوراق لے کر اس میں لکھا ہواسب کچھ مٹادیا۔ ‘‘
واقعہ إفک کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ
ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پرجب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاپر منافقین کی طرف سے تہمت لگائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت واقعہ سے لا علمی کی بنیاد پر أم المؤمنین کو اپنی زوجیت سے فارغ کرنے کے بارے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاہی سے یہ واقعہ کچھ اس طرح مروی ہے:
’’دعا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی بن أبی طالب وأسامۃ بن زید حین استلبث الوحی یسألھما ویستشیرھما فی فراق أھلہ قالت فأما أسامۃ فأشار علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالذی یعلم من براأۃ أھلہ وبالذی یعلم لھم فی نفسہ فقال أسامۃ أھلک ولا نعلم إلا خیرا وأما علی فقال یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یضیق اللّٰہ علیک والنساء سواھا کثیر وسل الجاریۃ تصدقک قالت فدعا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بریرۃ فقال أی بریرۃ ھل رأیت من شیء یریبک قالت لہ بریرۃ والذی بعثک بالحق ما رأیت علیھا أمرا قط أغمصہ غیر أنھا جاریۃ حدیثۃ السن تنام عن عجین أھلھا فتأتی الداجن فتأکلہ قالت فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من یومہ فاستعذر من عبد اللّٰہ بن أبی وھو علی المنبر فقال یا معشر المسلمین من یعذرنی من رجل قد بلغنی عنہ أذاہ فی أھلی واللّٰہ ماعلمت علی أھلی إلا خیرا ولقد ذکروا رجلاً ما علمت علیہ إلا خیرا وما یدخل علی أھلی إلا معی۔ ‘‘[1]
’’جب اس مسئلے میں وحی کے نزول میں کچھ تاخیر ہوگئی تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن أبی طالب اور أسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو أم المؤمنین سے اپنی علیحدگی کے حوالے سے مشورہ کرنے کے لیے بلابھیجا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پس أسامہ رضی اللہ عنہ نے تو اللہ کے
[1] صحیح بخاری‘ کتاب المغازی‘ باب حدیث الإفک (۳۹۱۰)‘ ۴؍ ۱۵۱۷۔