کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 230
عمر رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی گردنیں اڑا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے اعراض کیا۔ راوی کہتے ہیں ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار اس بات کو دہرایااور لوگوں سے ایسی ہی بات کہی‘ پس اب کی بار حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے درگزر فرمائیں اور ان سے فدیہ لے لیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر جو غم کے آثار تھے ‘ وہ اس بات سے رخصت ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں سے درگزر کیااور فدیہ قبول کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل کی’ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُم‘۔ ‘‘ شیخ شعیب الأرنؤوط حفظہ اللہ اس حدیث کی استنادی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’حسن لغیرہ وھذا اسناد ضعیف لضعف علی بن عاصم وھو ابن صہیب الواسطی۔ ‘‘[1] ’’یہ حدیث ’حسن لغیرہ‘ہے اگرچہ مذکورہ سند ’ضعیف‘ ہے کیونکہ اس میں ایک راوی’ علی بن عاصم‘ ضعیف ہے اور یہ’ابن صہیب واسطی‘ ہے۔ ‘‘ غزوہ أحد کے بارے میں اجتماعی مشاورت جنگ أحد کے موقع پرجب آپ کو کفارکے لشکر کی آمد کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہتے ہوئے یا باہر نکل کر جنگ لڑنے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’أخبرنا علی بن الحسین قال ثنا أمیۃ بن خالد عن حماد بن سلمۃ عن أبی الزبیر عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: استشار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الناس یوم أحد فقال إنی رأیت فیما یری النائم کأنی فی درع حصینۃ وکأن بقرا تنحر وتباع ففسرت الدرع المدینۃ والبقر بقرا واللّٰہ خیر فلو قاتلتموھم فی السکک فرماھم النساء من فوق الحیطان قالوا فیدخلون علینا المدینۃ ما دخلت علینا قط ولکن نخرج إلیھم قال فشأنکم إذا قال ثم قدموا قالوا رددنا علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأیہ فأتوا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالوا یا رسول اللّٰہ رأیک فقال ما کان لنبی أن یلبس لأمتہ ثم یخلعھا حتی یقاتل۔ ‘‘[2] ’’ہمیں علی بن حسین نے خبر دی‘ انہوں نے کہا ہمیں أمیہ بن خالدنے حدیث بیان کی‘ وہ حماد بن سلمہ سے‘ وہ أبو زبیرسے ‘ وہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے أحد والے دن لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں نے خواب میں دیکھاہے کہ میں ایک مضبوط زرہ میں ہوں اور ایک گائے کو ذبح کیا جاتا ہے اور پھر بیچا جاتا ہے۔ پس زرہ کی تاویل مدینہ سے کی گئی اور گائے سے مراد گائے ہی لی گئی۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)اللہ بہتری کرنے والے ہیں پس اگر تم ان کفار سے مدینے کی گلیوں میں لڑائی کرو تو عورتیں ان پر چھتوں اور دیواروں سے تیر اندازی کریں گی۔ اس پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اس طرح وہ مدینہ میں داخل ہو جائیں گے جبکہ اس سے پہلے کوئی ہماری مرضی کے خلاف کبھی بھی مدینہ میں داخل نہیں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ہم ان کفار کی طرف نکل کر ان سے لڑائی کریں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا پھر جیسے تمہاری مرضی۔ راوی کہتے ہیں پھرصحابہ میں بحث شروع ہو گئی کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کو رد کر دیاہے۔ پھر وہ صحابہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی رائے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ ایک دفعہ جب اپنی زرہ پہن لے تو پھر لڑائی سے پہلے اس کواتار دے۔ ‘‘ علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’حسن‘ کہا ہے۔ [3]
[1] مسند أحمد‘ مسند بنی ھاشم‘ مسند أنس بن مالک (۱۳۵۸۰)‘ ۳؍ ۲۴۳۔ [2] سنن الکبری للنسائی‘ کتاب التعبیر‘ باب الدرع (۷۶۴۷)‘ ۴؍ ۳۸۹۔ [3] السلسلۃ الصحیحۃ: (۱۱۰۰)‘ ۳؍ ۹۰۔