کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 229
لیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منبر بنوالیا۔ پس جب جمعہ کا دن آیا تو آپ منبر پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھے تو کھجور کے درخت نے آپ کی عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے آواز سے رونا شروع کر دیا۔ پس لوگ اس آواز سے گھبرا گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ستون کے پاس جاکر رک گئے اور اس کے پاس کھڑے ہو کر اس کو چھوا۔ پس وہ ستون پُرسکون ہو گیا۔ پھر اس دن کے بعداس کی آواز نہیں سنائی دی۔ ‘‘ غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشاورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں مشورہ لیاکہ کیا انہیں کفار کی معاشی ناکہ بندی کے لیے أبو سفیان کے قافلے کا رخ کرنا چاہیے یا نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے آپ کا جو مشورہ ہوا ‘ اس کے بارے ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ عن أنس أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شاور حین بلغہ إقبال أبی سفیان قال فتکلم أبوبکر فأعرض عنہ ثم تکلم عمر فأعرض عنہ فقام سعد بن عبادۃ فقال إیانا ترید یا رسول اللّٰہ والذی نفسی بیدہ لو أمرتنا أن نخیضھا البحر لأخضناھا۔ ‘‘[1] ’’حضرت أنس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو أبو سفیان کی آمد کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا۔ حضرت أنس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پس حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے کلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اعراض کیا۔ پھر حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کچھ کہلوانا چاہتے ہیں۔ اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اگر آپ ہمیں یہ حکم دیں کہ ہم سمندر میں کود پڑیں تو ہم کود پڑیں گے۔ ‘‘ غزوہ بدر کے قیدیوں کے بارے اجتماعی مشورہ غزوہ بدر کے موقع پرتقریباً ستر کفار کو جنگی قیدی بنایا گیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ طلب کیاکہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں یا قتل کر دیں۔ ایک حدیث میں منقول ہے: ’’حدثنا علی بن عاصم عن حمید عن أنس وذکررجلاً عن الحسن قال استشار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الناس فی الأساری یوم بدر فقال إن اللّٰہ عز وجل قد أمکنکم منھم قال فقام عمر بن الخطاب فقال یا رسول اللّٰہ اضرب أعناقھم قال فأعرض عنہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ثم عاد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یأیھا الناس إن اللّٰہ قد أمکنکم منھم وإنما ھم إخوانکم بالأمس قال فقام عمر فقال یا رسول اللّٰہ اضرب أعناقھم فأعرض عنہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ثم عاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال للناس مثل ذلک فقام أبوبکر فقال یا رسول اللّٰہ إن تری أن تعفو عنھم وتقبل منھم الفداء قال فذھب عن وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما کان فیہ من الغم قال فعفا عنھم وقبل منھم الفداء قال وأنزل اللّٰہ عز وجل ﴿ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ﴾ إلی آخر الآیۃ۔ ‘‘[2] ’’ہمیں علی بن عاصم نے حدیث بیان کی‘ وہ حمید سے‘ وہ أنس سے بیان کرتے ہیں ‘ انہوں نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا ہے جس نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن قیدیوں کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پرقدرت بخشی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی گردنیں اڑا دیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اعراض کیا۔ راوی کہتے ہیں ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس بات کو دہرایااور فرمایا: اے لوگو! اللہ نے تمہیں ان پر قدرت دی ہے اور یہ کل تمہارے ہی بھائی تھے۔ راوی کہتے ہیں ‘ حضرت
[1] صحیح مسلم‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب غزوۃ بدر (۱۷۷۹)‘ ۳؍ ۱۴۰۳۔ [2] مسند أحمد‘ مسند بنی ھاشم‘ مسند أنس بن مالک (۱۳۵۸۰)‘ ۳؍ ۲۴۳۔