کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 227
لمؤمنین ربما نمکث الشھر أو الشھرین ولا نجد الماء فقال عمر أما أنا فإذا لم أجد الماء لم أکن لأصلی حتی أجد الماء فقال عمار بن یاسر أتذکر یا أمیر المؤمنین حیث کنت بمکان کذا وکذا ونحن نرعی الإبل فتعلم أنا أجنبنا قال نعم أما أنا فتمرغت فی التراب فأتیناالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضحک فقال إن کان الصعید لکافیک وضرب بکفیہ إلی الأرض ثم نفخ فیھما ثم مسح وجھہ وبعض ذراعیہ فقال اتق اللّٰہ یا عمارفقال یا أمیر المؤمنین إن شئت لم أذکرہ قال ولکن نولیک من ذلک ما تولیت۔ ‘‘[1]
’’ہمیں محمد بن بشار نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد الرحمن نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں سفیان نے سلمہ سے بیان کیا‘ وہ أبومالک سے اور وہ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبزی سے اور وہ عبد الرحمن بن أبزی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پا س تھے تو ان کے پاس ایک آدمی آیا‘ پس اس نے کہا: اے أمیر المؤمنین! بعض اوقات ہم کسی جگہ ٹھہرتے ہیں (اور جنبی ہوجاتے ہیں )اورایک یا دومہینے تک پانی نہیں پاتے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا ذاتی معاملہ ہے تو میں اس صورت حال میں اس وقت تک نماز نہ پڑھوں گا‘جب تک کہ میں پانی نہ پا لوں۔ اس پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ کویاد ہے کہ آپ فلاں فلاں مقام میں تھے اور ہم اونٹ چرایا کرتے تھے۔ پس آپ جانتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم جنبی ہوگئے۔ حضر ت عمار رضی اللہ عنہ نے مزید کہا: ہاں ! جہاں تک میری صورت حال تھی تو میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا۔ پس ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے اور فرمایا: تیرے لیے تو صرف مٹی ہی کافی تھی اورتو زمین پر اپنی دونوں ہتھیلیاں مار لیتا اور پھر ان میں پھونک مار کر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عمار! اللہ سے ڈر(یعنی مجھے تو کوئی ایساواقعہ یاد بھی نہیں ہے)۔ اس پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! اگر آپ کہتے ہیں تو میں اس واقعے کی یاد آپ کو نہیں دلواؤں گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تمہیں اس مسئلے میں اسی کے سپرد کرتے ہیں کہ جس کو تو یہ مسئلہ سپرد کیا ہے۔ ‘‘
علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ [2]
یہ روایت بھی اس مسئلے میں شاہد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ بھی اجتہاد فرماتے تھے۔ مذکورہ بالا دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عصر نبوت میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اجتہاد کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی‘یہ تو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں انفرادی اجتہاد کی چند مثالیں تھیں ‘ اب ہم اس دور میں اجتماعی اجتہاد کی بعض صورتوں کو زیر بحث لا رہے ہیں۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اجتماعی اجتہاد
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جن مسائل میں کوئی نص نازل نہیں ہوئی تھی‘ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجتہاد کر لیا کرتے تھے۔ بعض مسائل ایسے بھی ہوتے تھے کہ جن میں مسئلے کی نزاکت و اہمیت کے پیش نظر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرما لیا کرتے تھے۔ یہ دراصل کسی مسئلے کے بارے میں مشاورتی اجتہاد ہوتا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مختلف مسائل کے حل میں یہ باہمی مشاورت ان قرآنی احکامات کی تعمیل کی وجہ سے بھی تھی‘ جن کا تذکرہ ہم سابقہ باب میں کر چکے ہیں۔ ذیل میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مختلف مسائل میں ہونے والی اجتماعی مشاورت کی چند مثالیں پیش کر رہے ہیں :
طریقہ أذان کے بارے باہمی مشاورت
ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ہی مسجدنبوی کی تعمیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز باجماعت کاآغاز فرمایا۔ شروع شروع میں ایک مسئلہ یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کو نماز کے لیے کیسے مطلع کیا جائے؟۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشاورت کی۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں :
[1] سنن النسائی‘ کتاب الطھارۃ‘ باب التیمم (۳۱۶)‘ ۱؍ ۱۶۸۔
[2] صحیح أبی داؤد‘ باب التیمم (۳۴۴)‘ ۲؍ ۱۳۲۔