کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 226
صنعت الیوم أمرا عظیماً فقبلت وأناصائم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرأیت لوتمضمضت بماء وأنت صائم قلت لابأس بذلک فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ففیم۔ ‘‘[1]
’’ہمیں حجاج نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں ہمیں لیث نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں مجھے بکیر نے بیان کیا‘ وہ عبد الملک بن سعید أنصاری سے نقل کرتے ہیں ‘وہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دن اپنے اندر چستی محسوس کی ‘ پس میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کوبوسہ دیا۔ اس کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااور میں نے کہا:میں نے آج ایک بہت بڑا کام کیا ہے‘ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اگر تو پانی سے کلی کر لیتا تو اس بارے میں تیری کیا رائے ہے۔ اس پر میں نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اس مسئلے میں کیوں پریشان ہوتے ہو۔ ‘‘
علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو’صحیح‘ قرار دیا ہے۔ [2]
اس حدیث سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسائل شرعیہ میں اجتہاد کرتے تھے‘ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں بوسہ لینے کو اس حالت میں کلی کرنے پر قیاس کیا ہے‘ اور قیاس اجتہاد ہی کی ایک معروف قسم ہے۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
’’حدثنا محمد بن إسحق المسیبی أخبرنا عبد اللّٰہ بن نافع عن اللیث بن سعد عن بکر بن سوادۃ عن عطاء بن یسار عن أبی سعید الخدری قال خرج رجلان فی سفر فحضرت الصلاۃ ولیس معھما ماء فتیمما صعیدا طیباً فصلیا ثم وجد الماء فی الوقت فأعاد أحدھما الصلاۃ و الوضوء ولم یعد الآخر ثم أتیا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فذکر ذلک لہ فقال للذی لم یعد أصبت السنۃ وأجزأتک صلاتک وقال للذی توضأ وأعاد لک الأجر مرتین۔ ‘‘[3]
’’ہمیں محمد بن اسحاق المسیبی نے بیان کیا‘ وہ فرماتے ہیں : ہمیں عبداللہ بن نافع نے لیث بن سعدسے خبر دی ہے‘انہوں نے بکر بن سوادہ اورانہوں نے عطاء بن یسار سے اور وہ أبو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:دو آدمی ایک سفر میں نکلے اور نماز کا شروع وقت ہو گیاجبکہ ان کے پاس پانی بھی نہ تھا۔ پس ان دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑ ھ لی۔ پھر انہوں نے نماز کے وقت میں ہی پانی پا لیا۔ پس ان میں سے ایک نے نماز اور وضو کو دہرا لیا اور دوسرے نے نہ دہرایا۔ پھر وہ دونوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے اس واقعہ کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہ جس نے نمازکو نہ دہرایا تھا‘ کہا: تم نے سنت کو پالیا اور تجھے تیری نماز کفایت کرے گی۔ اور اس شخص سے کہ جس نے نماز کا اعادہ کیا تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تیرے لیے دو گنا اجر ہے۔ ‘‘
علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’صحیح‘ کیا ہے۔ [4]
اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ضرورت پیش آنے پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اجتہاد فرمالیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اجتہادات کی تصحیح بھی فرماتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جب آپ کی زندگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجتہاد جائز تھا کہ جن کی رائے میں خطا کا امکان بھی موجود تھا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ بالأولی جائز ہوگا۔ ایک اور حدیث کا بیان ہے:
’’أخبرنا محمد بن بشار قال حدثنا عبد الرحمن قال حدثنا سفیان عن سلمۃ عن أبی مالک وعن عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن بن أبزی عن عبد الرحمن بن أبزی قال کنا عند عمر فأتاہ رجل فقال یا أمیر
[1] مسند أحمد‘ مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ مسند الخلفاء الراشدین‘ أول مسند عمر بن الخطاب (۱۳۸)‘ ۱؍ ۲۱۔
[2] صحیح أبی داؤد‘ باب القبلۃ للصائم (۲۰۶۴)‘ ۷؍ ۱۴۷۔
[3] سنن أبی داؤد‘ کتاب الطھارۃ‘ باب فی المتیمم یجد الماء بعد ما یصل فی الوقت (۳۳۸)‘ ۱؍ ۱۴۶۔
[4] صحیح أبی داؤد‘ باب المتیمم یجد الماء بعد ما یصلی(۳۶۶)‘ ۲؍ ۱۶۵۔