کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 225
’’حضرت أبو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ انہوں نے کہا: جب بنو قریظہ کا حَکم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو(ان کی اپنی خواہش پر)مقرر کیاگیاتو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو بلا بھیجا اور وہ کہیں قریب ہی تھے۔ پس وہ ایک گدھے پر آئے۔ پس جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ۔ پس حضرت سعد رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:(اے سعد!)انہوں نے تمہیں اپنا حَکم بنایا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو قتل کر دیے جائیں اور ان کے بیوی ‘ بچوں کو غلام بنالیا جائے۔ اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اے سعد!)تو نے ان کے مابین اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ‘‘ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اجتہاد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے صحابہ کی اجتہادی تربیت بھی فرماتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجودگی میں حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو بنو قریظہ کے بارے میں شرعی سزا و حدنافذ کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا‘ جس سے ایک نکتہ یہ بھی نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اجتہاد جائز تھا‘ اس مسئلے پر ہم آگے چل کر مزید بحث کریں گے۔ جب کوئی صحابی آپ کی موجودگی یا زندگی میں اجتہاد کرتا تھا اور آپ کواس اجتہاد کی خبر ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا تو اس پر تقریر فرماتے تھے یا پھر اس کی تصحیح کر دیتے تھے۔ آپ کی تقریر و تصویب سے صحابہ کا اجتہاد‘ سنت تقریری کا درجہ حاصل کر لیتا تھا۔ درج بالا روایات شیخین نے نقل کی ہیں اور ہم نے ان کو بیان کرتے ہوئے مکمل سند کوبیان نہیں کیا ہے اور صرف متن پر ہی اکتفا کیا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ محدثین کا اس بات پر تقریباًاتفاق ہے کہ صحیحین کی تمام روایات مقبول درجے کی ہیں۔ ٭ ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق سنن اور چند دوسری کتب احادیث میں بیان شدہ روایات کو مکمل سند کے ساتھ نقل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی ہے کہ اگر کسی حدیث کے بارے میں متقدمین یا متأخرین محدثین کا کوئی حکم موجود ہے تو اس کا تذکرہ بھی آ جائے‘ وگرنہ اس کی سند تو موجود ہے ہی‘تا کہ اگر کوئی عالم یا محقق اس روایت کی استنادی حیثیت پر بحث کرنا چاہے تو اس کے لیے آسانی رہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’أخبرنا محمد بن علی بن میمون قال حدثنا محمد بن یوسف الفریابی قال حدثنا سفیان عن أسمعیل بن أمیۃ عن عبد اللّٰہ بن یزید عن زید عن سعد بن مالک قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الرطب بالتمر فقال أینقص إذا یبس قالوا نعم فنھی عنہ۔ ‘‘[1] ’’ہمیں محمد بن علی بن میمون نے خبر دی ‘ وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سفیان نے بیان کیا‘ وہ اسماعیل بن أمیہ سے اور وہ عبد اللہ بن یزید سے اور وہ زید اور وہ سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خشک کھجور کو تر کھجور کے بدلے بیچنے کے بارے میں سوال ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب وہ خشک ہو جاتی تو کیا کم ہو جاتی ہے۔ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: جی ہاں !اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ ‘‘ علامہ ألبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو’صحیح‘ کہا ہے۔ [2] اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک کھجور کو تر کھجور کے بدلے بیچنے کاحکم اجتہاد و رائے کی صورت میں جار ی کیاتھا۔ ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں: ’’حدثنا حجاج حدثنا لیث حدثنی بکیر عن عبد الملک بن سعید الأنصاری عن جابر بن عبد اﷲعن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ قال ھششت یوماً فقبلت وأنا صائم فأتیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت
[1] اس موضوع پر راقم الحروف کا ایک تحقیقی مضمون ماہنامہ ’محدث‘ مارچ ۲۰۰۸ء ا ور ماہنامہ’میثاق‘ اکتوبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو اہے۔  سنن النسائی‘ کتاب البیوع‘ باب اشتراء التمر بالرطب(۴۵۴۶)‘ ۷؍ ۲۶۹۔ [2] إرواء الغلیل ‘ باب الربا۔ (۱۳۵۲) ۵؍ ۱۹۹