کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 224
مدینہ میں ایک حکمران کی حیثیت سے مسلمانوں اور اہل کتاب کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کرتے تھے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : ’’عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال حرم اللّٰہ مکۃ فلم تحل لأحد قبلی ولا أحد بعدی أحلت لی ساعۃ من نھار لا یختلی خلاھا ولا یعضد شجرھا ولا ینفر صیدھا ولا تلتقط لقطتھا إلا لمعرف فقال العباس رضی اللّٰہ عنہ إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا فقال إلا الإذخر۔ ‘‘[1] ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کومحترم ٹھہرایا ہے۔ پس یہ شہر مجھ سے پہلے نہ تو کسی کے لیے حلال کیا گیا ہے اور نہ ہی مجھ سے بعد کسی کے لیے حلال کیا جائے گا۔ یہ میرے لیے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال کیا گیا۔ اس کی گھاس نہ کاٹی جائے گی اور اس کے درخت نہ اکھیڑے جائیں گے اور اس شکار کابھگایا نہ جائے گا اور اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے گی سوائے اس شخص کے کہ جو اس کو اٹھانے کے بعد اس کااعلان کرنے والاہو۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: سوائے اذخر گھاس کے‘ جو ہمارے کاریگروں اور قبروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سوائے اذخر گھاس کے(یعنی اس گھاس کو حدود حرام میں کاٹنے کی کی اجازت ہے)۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے۔ جس سرعت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوال کے جواب میں اذخر گھاس کے استعمال کی اجازت دی‘ اس سے غالب گمان کے طور پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے کی روشنی میں لوگوں کی ضرورت و مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک حکم جاری فرمایا‘ جس کو بعد ازاں اللہ کی تقریر و تصویب نے شریعت و وحی باطن کا درجہ عنایت فرما دیا۔ ایک دوسر ی حدیث میں مروی ہے: ’’عن أنس بن مالک أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتی برجل قد شرب الخمر فجلدہ بجریدتین نحو أربعین قال وفعلہ أبو بکر فلما کان عمر استشار الناس فقال عبد الرحمن أخف الحدود ثمانین فأمر بہ عمر۔ ‘‘[2] ’’حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایساآدمی لایا گیا کہ جس نے شراب پی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دو شاخوں والی کھجور کی ٹہنی کے ذریعے چالیس کوڑوں کی سزا جاری کی۔ وہ فرماتے ہیں : حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے لوگوں سے مشورہ کیا توعبد الرحمن بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: کہ کم سے کم حد اسی کوڑوں کی ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم جاری کر دیا۔ ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شراب کی حد کے بارے میں ہونے والے اجتہادی فیصلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک شراب کی حد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی اجتہاد و رائے سے جاری فرمائی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرابی کو جو چالیس کوڑے لگوائے گئے تھے‘ اس کے بارے میں بھی ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ اس میں چالیس کی تعداد اصلاً مطلوب تعدادنہ تھی بلکہ اس شخص کی ہزیمت و بے عزتی مقصود تھی تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ کوڑوں کی اجتہادی سزا کے مقصود کو تو بہر صورت قائم رکھا لیکن اس کی تعداد میں اجتہاد سے کام لیا۔ ایک اور حدیث کا بیان ہے: ’’عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال لما نزلت بنو قریظۃ علی حکم سعد ھو ابن معاذ بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان قریباً منہ فجاء علی حمار فلما دنا قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قوموا إلی سیدکم فجاء جلس إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال لہ إن ھؤلاء نزلوا علی حکمک قال فإنی أحکم أن تقتل المقاتلۃ وأن تسبی الذریۃ قال لقد حکمت فیھم بحکم الملک۔ ‘‘[3]
[1] صحیح بخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب الإذخر والحشیش فی القبر (۱۲۸۴)‘ ۱؍ ۴۵۲۔ [2] صحیح مسلم‘ کتاب الحدود‘ باب حد الخمر(۱۷۰۶)‘ ۳؍ ۱۳۳۰۔ [3] صحیح بخاری‘ کتاب المناقب‘ باب مناقب سعد بن معاذ (۲۸۷۸)‘ ۳؍ ۱۱۰۷۔