کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 223
المتفکرین فی آیات اللّٰہ وأعظم المعتبرین بھا وأما قولہ تعالیٰ ﴿اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ فالمراد بہ القرآن لأنھم قالوا إنما یعلمہ بشر سلمنا أن الضمیر للنطق ولا یلزم منہ ماذکرتم لأن الاجتھاد الشرعی مأذون فیہ والدلیل علیہ فی الآراء والحروب کثیر کقتلہ النضر ونحوہ فی الأمور التی تحری فیھا واختار أحد الجائزین وأما الأحکام فلأنہ أکمل من غیرہ لعصمتہ من الخطأ فإذا جاز لغیرہ الذی ھو عرضۃ للخطأ فلأن یجوز للکامل أولی ولأن العمل بالاجتھاد أشق من العمل بالیقین فیکون أکثر ثواباً۔ ‘‘[1] ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسی طرح خطاب کیا ہے جیسا کہ اپنے دوسرے بندوں سے کیا ہے اور آپ کو بھی تدبر و غورو فکر کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی آیات میں سب سے بڑھ کر غور و فکر کرنے والے اور ان کو جانچنے والے تھے۔ جہاں تک اللہ کے اس قول کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر کوئی بھی بات نہیں کرتے ہیں تو اس سے مراد قرآن ہے کیونکہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیاتھاکہ آپ کو قرآن کی تعلیم ایک عجمی شخص دیتا ہے۔ ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ اس آیت میں ضمیر نطق کے لیے ہے لیکن اس بات کو ماننے سے وہ نتیجہ لازم نہیں آتا جو فریق ثانی نکال رہا ہے‘ کیونکہ اس نطق میں شرعی اجتہاد کی آپ کو اجازت تھی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جنگی معاملات اوردنیاوی آراء میں اجتہاد کیا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(حدود حرم میں )نضر بن حارث کو قتل کرنے میں اجتہاد کیا۔ اسی طرح جن مسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہتر یا دو جائز امورمیں سے ایک کو اختیار فرماتے‘ ان میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد کے ذریعے ہی یہ کام کرتے تھے۔ جہاں تک شرعی احکام کا معاملہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطا سے معصوم ہونے کی وجہ سے تمام امت سے کامل ہیں۔ پس جب اجتہاد امت کے حق میں جائز ہے کہ جن سے خطا کا امکان بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بالأولی جائز ہوا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اجتہادی رائے پر عمل کرنے میں یقینی حکم شرعی پر عمل سے زیادہ مشقت ہے‘ لہٰذا اجتہاد کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہو گا۔ ‘‘ اس بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتہاد کرنا جائز تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی و دنیاوی امور میں بالفعل اجتہاد کیا بھی ہے‘ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض ان معاملات میں وحی کا انتظار بھی فرما لیتے تھے کہ جن میں انتظارِ وحی سے وقوعے کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تھا۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں انفرادی اجتہاد جیساکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں امور شرعیہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اب ہم ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اجتہادات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ دور نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے زیر سایہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بعض مسائل میں اجتہاد کیااور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اجتہاد کو برقرار رکھا‘ جس سے وہ سنت تقریری کی صورت میں شریعت کا درجہ اختیار کر گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کی چند معروف مثالیں درج ذیل ہیں : ’’عن عمرو بن العاص أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول إذا حکم الحاکم فاجتھد ثم أصاب فلہ أجران وإذا حکم فاجتھد ثم أخطأ فلہ أجر۔ ‘‘[2] ’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم اپنے کسی فیصلے میں اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے اور جب وہ کوئی فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد کرے اور خطا کا مرتکب ہو تو اس کے لیے پھر بھی ایک گنا اجر ہے۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجتہد کے لیے خطا کی صورت میں بھی ایک گنا اجر ہے۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اجتہاد کی ترغیب و تشویق تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مختلف علاقوں کی طرف گورنر یاأمراء بناکر بھیجے جاتے تھے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ریاست
[1] البحر المحیط:۴؍ ۵۰۳ [2] صحیح بخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب أجر الحاکم إذا اجتھد فأصاب أو أخطا(۶۹۱۹)‘ ۶؍ ۲۶۷۶۔