کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 222
بالکل بھی نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرمسئلے میں وحی کے منتظر رہتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد کرتے تھے اور بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی تصحیح بھی اللہ کی طرف سے کر دی جاتی تھی۔ پس جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا‘ اجتہاد کر لیا اور جس جگہ آپ کواپنے اجتہاد سے قبل ہی ممکنہ خطا کا اندیشہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو وحی پر چھوڑ دیا۔
اب بعض اوقات تو ان مسائل کے حل کے طور پر وحی نازل ہو جاتی تھی جیسا کہ واقعہ افک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیااورکوئی ذاتی رائے بنانے کی بجائے وحی کا انتظار کیا۔ پس اس مسئلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برات میں وحی نازل ہوگئی۔ جبکہ بعض حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار کے باوجود بھی کوئی وحی نازل نہ ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد کر لیا کرتے تھے۔ اس بات کو فقہائے حنفیہ نے یوں بیان کیا ہے۔ شیخ محمدالخضری بک حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ اختلف الأصولییون ھل یجوز للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالاجتھاد فیما لا نص فیہ‘ أو لایجوز؟ قال الحنفیۃ إنہ علیہ الصلاۃ و السلام مأمور إذا عرضت لہ حادثۃ أن ینتظر الوحی إلا أن یخاف فوت الحادثۃ ثم بالاجتھاد إذا لم یوح إلیہ والاجتھاد بالنسبۃ إلیہ یخص القیاس ثم إذا أقر علی اجتھادہ کان دلیلاً قاطعاً علی صحتہ لأنہ لا یقر علی خطأ کما یأتی وبذلک لا نجوز مخالفتہ کما جازت مخالفۃ سائر المجتھدین وقد عد الحنفیۃ ھذا الاجتھاد نوعاً من الوحی وسموہ الوحی الباطن وقال أکثر الأصولیین إنہ علیہ الصلاۃ و السلام مأمور بالاجتھاد مطلقاً من غیر تقیید بانتظار وحی وقال الأشاعرۃ وأکثر المعتزلۃ والمتکلمین: لیس لہ علیہ الصلاۃ والسلام الاجتھاد فی الأحکام الشرعیۃ وقال بعضھم لہ الاجتھاد فی الحروب فقط۔ ‘‘[1]
’’أصولیین کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ ان مسائل میں کہ جن میں کوئی نص واردنہیں ہوئی ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتہاد جائز تھایا نہیں۔ فقہائے حنفیہ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم تھاکہ جب انہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ وحی کا انتظار فرمائیں إلایہ کہ انہیں اس وقوعے کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ جب کسی مسئلے میں ان کی طرف وحی نازل نہ کی جائے تو وہ اجتہاد سے اس وقوعے کا حل پیش کریں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتہاد کا معنی و مفہوم قیاس ہے۔ پھر جب اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اجتہاد پر تقریر(خاموش تائید)ثابت ہو جائے تو وہ اس اجتہاد کے قطعاً صحیح ہونے کی دلیل ہے کیونکہ آپ کی کسی خطا پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تقریر ثابت نہیں ہو سکتی جیسا کہ آگے چل کر ہم اس کو بیان کریں گے۔ پس کسی بھی امتی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اجتہاد میں بھی‘ آپ کی مخالفت جائز نہیں ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی مجتہد سے اختلاف رکھنا رواہے۔ حنفی فقہاء نے اس اجتہاد کو وحی ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے اور وہ اسے وحی باطن کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ اکثر أصولیین کا کہنا یہ ہے کہ آپ کووحی کے انتظار کے بغیر مطلق طور پر اجتہاد کی اجازت تھی۔ أشاعرہ‘ معتزلہ اور متکلمین کا کہنا یہ ہے کہ آپ کواحکام شرعیہ میں بالکل بھی اجتہاد کی اجازت نہ تھی جبکہ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف جنگی امور میں اجتہاد کی اجازت تھی۔ ‘‘
جہاں تک مانعین ِ اجتہاد کی تیسری دلیل کا تعلق ہے کہ آپ کو نص کے حصول پر قدرت حاصل تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتہاد جائز نہ تھا‘ تو یہ منطق درست نہیں ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اجتہاد کے ذریعے ہی تو امت کے لیے ایک سنت قائم ہو سکتی تھی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرعی امور میں اجتہاد نہ فرماتے اور صرف وحی پر اکتفا کرتے تو امت شرعی مسائل میں اجتہاد کس بنیاد پر کرتی؟۔ علاوہ ازیں جب امت کے حق میں امور شرعیہ میں اجتہاد جائز ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجمیع امت سے رتبے میں بہت بلند ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بالأولی جائز ہو گا۔ امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ لأن اللّٰہ تعالیٰ خاطب نبیہ کما خاطب عبادہ وضرب لہ الأمثال وأمرہ بالتدبر والاعتبار وھو أجل
[1] أصول الفقہ: ص۳۷۰