کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 221
الرجلان وقال کل واحد منھما حقی ھذا الذی أطلب لصاحبی قال لا ولکن اذھبا توخیا ثم استھما ثم یحلل کل واحد منکما صاحبہ۔ ‘‘[1]
’’ہمیں یزید بن سنان نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں ہمیں صفوان بن عیسی نے بیان کیا‘ وہ کہتے ہیں ہمیں اسامہ بن زید نے بیان کیا‘ وہ مولی أم سلمہ عبد اللہ بن رافع سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ أم المؤمنین أم سلمہt سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھی کہ اس دوران دو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جو وراثت کے ایک مسئلے اور بعض ایسی اشیاء میں جھگڑا کر رہے تھے کہ جن کی علامات و شواہد مٹ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے مابین اس مسئلے میں کہ جس میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی‘ اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا۔ پس جس کے حق میں ‘ مَیں اپنی رائے سے مقدمے کافیصلہ کر دوں اور وہ اس فیصلے کی وجہ سے زمین کا کوئی ٹکڑا ظلم سے حاصل کر لے تووہ آگ کی سلاخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرے گااوروہ قیامت کے دن اسے اپنی گردن میں لٹکائے آئے گا۔ پس وہ دونوں آدمی رو پڑے اور ان میں سے ہر ایک نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میر ایہ حق ‘ جو میں اپنے عزیز سے مانگ رہا تھا‘ اس کو دے دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لیکن تم دونوں پہلے جا کر بھائی چارہ قائم کرو‘ پھر قرعہ اندازی کرو اور پھر تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کو اپنا حق معاف کر دے۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شرعی امور میں بھی اجتہاد جائز تھاکیونکہ وراثت کا مسئلہ ایک شرعی حکم ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مکی کی پابندیوں کو بیان کرتے ہوئے ایک خاص قسم کی گھاس کو اکھیڑنے کی اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ اجازت ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی خواہش پر فوری رد عمل کی صورت میں سامنے آئی‘ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ ہم آگے چل کر اس حدیث پر بالتفصیل گفتگو کریں گے۔ اس کے علاوہ بہت سے مسائل مثلا سورۃ فاتحہ کی اجرت لینے‘ شراب نوشی کی حد مقرر کرنے اور خشک کھجوروں کو تر کھجوروں کے بدلنے بیچنے وغیرہ کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اجتہادی آراء کا اظہار کیاجس پر مفصل گفتگو آگے آ رہی ہے۔
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امور شرعیہ میں بھی اجتہاد جائز تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اجتہاد پر جب اللہ کی طرف سے تقریر یا تصویب ہو جاتی ہے تو پھر یہ اجتہاد‘ وحی باطن کہلاتاہے۔ بعض اوقات اس قسم کے اجتہادات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے تصحیح بھی ہو جاتی تھی۔
مانعین کے دلائل کا تجزیہ
جہاں تک پہلے فریق کے دلائل کا تذکرہ ہے تو اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ’إن ھوإلا وحی یوحی‘ میں ’ھو‘ ضمیر’نطق‘ کی طرف لوٹ رہی ہے لیکن اس’نطق‘سے مراد قرآن کا نطق ہے جیسا کہ آیت کے سیاق سے واضح ہو رہا ہے۔
جہاں تک اس روایت کا معاملہ ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل‘ شرعی امور میں اپنی رائے کے اظہار کی بجائے‘ انتظار وحی کی صورت میں دکھلایا گیاہے تو یہ ایک مرسل روایت ہے۔ زید بن أسلم رحمہ اللہ تابعی ہیں جبکہ انہوں نے جن صحابی رضی اللہ عنہ سے وہ روایت نقل کی ہے‘ اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ مرسل روایت کی حجیت کے بارے میں فقہاء و محدثین کا اختلاف ہے۔ محدثین مرسل روایت کو انقطاع سند کی وجہ سے ضعیف کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ مرسل روایت ان صحیح روایات کے بھی خلا ف ہے کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اجتہاد کو جائز قرار دیاگیا ہے۔ لہذاصحیح روایات کے معارض ایک مرسل روایت کو کیسے ترجیح دی جا سکتی ہے؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض معاملات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی اجتہاد کی بجائے وحی کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر وحی آ جاتی تو بہتر اور اگر نہ آتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد کر لیا کرتے تھے۔ پس اس روایت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کی بجائے وحی کا انتظار فرمایا۔ اس روایت کا یہ مفہوم
[1] سنن الدارقطنی‘ کتاب فی الأقضیۃ والأحکام وغیرذلک‘ باب فی المرأۃ تقتل إذا ارتدت۔ ۴؍ ۲۳۸