کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 220
یأتہ فیھما شیء فعاود الرجل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ذلک وعاد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بمثل قولہ ثلاث مرات فلم یأتہ فیھما شیء فقال لہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یأتنی فیھما شیء۔ ‘‘[1]
’’ہمیں عبد الرزاق نے حضرت معمر رحمہ اللہ سے خبر دی ہے اور وہ زید بن أسلم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ایک آدمی کی وفات ہو گئی ہے اور اس کے ورثاء میں اس کی ایک خالہ اور پھوپھی ہے(تو وراثت میں ان کا کیا حصہ ہے؟)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں الفاظ(یعنی خالہ اور پھوپھی)کو اسی طرح دہراتے رہے اور اس مسئلے میں وحی کے نزول کا انتظار کر رہے تھے۔ پس اس مسئلے میں جب کوئی وحی نازل نہ ہوئی تو اس شخص نے پھر اپنا سوال پیش کیا‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی بات کو تین مرتبہ دہرایا‘ لیکن اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی وحی نازل نہ ہوئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا: اس بارے میں میرے پاس کوئی وحی نہیں آئی ہے(لہٰذا ان کا کوئی حصہ نہیں ہے)۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اجتہاد جائز ہوتا تو وحی نہ آنے کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتہاد سے خالہ اور پھوپھی کا حصہ مقرر کر دیتے ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہ کیا۔
ان حضرات نے اپنے موقف کے حق میں بعض عقلی و منطقی دلائل بھی بیان کیے ہیں جن کاخلاصہ یہ ہے:
٭ چونکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو نص کے حصول پر قدرت حاصل تھی لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجتہاد جائزنہ تھا۔
مجوزین کے دلائل
جو علماء اس موقف کے حامی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شرعی امور میں بھی اجتہاد جائز تھا‘ ان کے دلائل درج ذیل ہیں :
﴿ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ﴾[2]
’’اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درگزر کرے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان(یعنی منافقین)کو(جنگ سے پیچھے رہنے کی)اجازت کیوں دی۔ ‘‘
غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کی ایک جماعت نے اپنے جھوٹے عذر بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی‘ اس پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے درج بالا آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اسی طرح غزوہ بدر کے قیدیوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہوئے‘ فدیہ لے کر رہا کر دیا۔ جس پر اللہ کی طرف سے درج ذیل آیت میں تنبیہ نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾[3]
’’اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے بیان نہ ہو چکا ہوتا تو( اے مسلمانو! )لازماًتمہیں اس فدیے کی وجہ سے جو تم نے حاصل کیاہے ایک بہت بڑا عذاب پہنچتا۔ ‘‘
یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امور حرب میں اجتہاد جائز تھا۔ اسی طرح بعض صحیح روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شرعی امور میں بھی اجتہاد جائز تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’حدثنا یزید بن سنان حدثنا صفوان بن عیسی حدثنا أسامۃ بن زید عن عبد اللّٰہ بن رافع مولی أم سلمۃ عن أم سلمۃ قالت: کنت جالسۃ عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذ جاء ہ رجلان یختصمان فی مواریث فی أشیاء قد درست فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنی إنما أقضی بینکما برأیی فیما لم ینزل علی فمن قضیت لہ لقضیۃ أراھا فقطع بھا قطعۃ ظلماً فإنما یقطع بھا قطعۃ من نار إسطاما یأتی بھا فی عنقہ یوم القیامۃ قال فبکی
[1] مصنف عبد الرزاق‘ کتاب الفرائض‘ باب الخالۃ والعمۃ ومیراث القرابۃ (۱۹۱۰۹)‘ ۱۰؍ ۲۸۱۔
[2] التوبہ : ۹ : ۴۳
[3] الأنفال : ۸ : ۶۸