کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 219
یجتھدوا فیما لا نص فیہ؟ علی مذاھب۔ الأول لیس لھم ذلک لقدرتھم علی النص نزول الوحی والمذھب الثانی وعلیہ الجمھور وھو ظاھر مذھب الشافعی کما قالہ الماوردی وسلیم ومذھب أحمد وأکثر المالکیۃ منھم القاضی عبد الوھاب والقاضیان أبو یوسف وعبد الجبار وأبو الحسین والقاضی فی التقریب أنہ یجوز لنبینا وغیرہ من الأنبیاء علیھم السلام ذلک وأومأ إلیہ الشافعی فی الرسالۃ۔ ‘‘[1] ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ دنیاوی مصالح اورجنگی تدابیر وغیرہ کے حوالے سے اجتہاد کریں اورانہوں نے یہ اجتہاد کیا بھی ہے جیسا کہ سلیم رحمہ اللہ اور ابن حزم رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔ اس کی مثال وہ واقعہ ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غطفان کے لوگوں سے مدینہ کے ایک تہائی پھل کے بدلے میں مصالحت کا ارادہ کیا تھا۔ یہ ایک مباح عمل تھا کیونکہ لوگوں کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ اپنے مال جس کو چاہیں ‘ ہبہ کریں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول بھی اس کی مثال ہے‘ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ کے پھلوں کی پیوند کاری سے روک دیا تھاکیونکہ ایک آدمی کے لیے یہ مباح عمل ہے کہ وہ اپنے پودوں کی پیوند کاری کرے یا نہ کرے۔ ۔ ۔ جہاں تک انبیاء کے اس اجتہاد کا تعلق ہے ‘ جو امور شرعیہ میں ہو تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا انبیاء کو یہ حق حاصل تھا کہ جن امور میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو‘ وہ اس میں اجتہاد کر سکیں ؟۔ اس مسئلے میں کئی آراء ہیں۔ پہلی رائے تو یہ ہے کہ انبیاء کو شرعی امور میں اجتہاد کا حق حاصل نہیں تھا کیونکہ ان کو وحی کے حصول پر قدرت حاصل تھی(یعنی کسی مسئلے کا حل ان کو بذریعہ وحی بھی معلوم ہو سکتا تھا لہذا اجتہاد کی ضرورت نہ تھی)۔ ۔ ۔ جبکہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تمام انبیاء اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امور شرعیہ میں بھی اجتہاد کرنا جائز تھا۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا ظاہر مذہب ہے جیسا کہ امام ماوردی رحمہ اللہ اور سلیم رحمہ اللہ نے بیان کیاہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر مالکیہ کہ جن میں قاضی عبد الوہاب رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ‘ کابھی یہی موقف ہے۔ قاضی أبویوسف رحمہ اللہ ‘ قاضی عبد الجبار رحمہ اللہ ‘ أبو الحسین رحمہ اللہ اور صاحب’تقریب‘ نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’الرسالۃ‘ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ‘‘ اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ دنیاوی مصالح اور جنگی تدابیرمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کے تمام علماء قائل ہیں ‘ اختلاف صرف شرعی دائرہ کار میں اجتہاد کا حق حاصل ہونے کے بارے میں ہے۔ ذیل میں ہم دونوں طبقہ علماء کے دلائل اور ان کا ایک مختصر تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ مانعین کے دلائل جو فقہاء شرعی امور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کرنے کے حق میں نہیں ہیں ‘انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں درج ذیل دلائل بیان کئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾[2] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے۔ نہیں ہے وہ(یعنی جو بات آپ کرتے ہیں )مگر وحی جو(آپ کی طرف)وحی کی جاتی ہے۔ ‘‘ سورۃ النجم کی آیت ۴ میں ’ھو‘ ضمیر کا مرجع سابقہ آیت کالفظ ’نطق‘ہے۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بولنا وحی ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم امور شرعیہ میں وحی کے بغیر گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ ان علماء نے اس حدیث کوبھی معرض استدلال بنایا ہے جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر وحی کسی مسئلے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن زید بن أسلم قال: جاء رجل إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل توفی وترک خالتہ وعمتہ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخالۃ و العمۃ یرددھما کذلک ینتظر الوحی فیھما فلم
[1] البحر المحیط: ۴؍ ۵۰ [2] النجم : ۵۳ : ۳۔ ۴