کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 218
ماضی میں اجتماعی اجتہاد : ایک تاریخی پس منظر اور ارتقاء
فصل أول
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں اجتماعی اجتہاد کا تصور
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہرزمانے اور ہر قوم میں اپنے انبیاء و رسل بھیجے۔ ان انبیاء و رسل کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ اس وحی کے نزول کے دو طریقے تھے :
1۔ بعض اوقات یہ وحی‘ لفظاً ہوتی تھی یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے ہوتے ہیں اور معنی بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ’وحی لفظاً‘ تحریری صورت میں ہی انبیاء پر نازل ہوتی تھی یا بعد میں اسے تحریر کی شکل دے دی جاتی تھی۔ وحی لفظاًکی مثالیں صحف ابراہیم‘ تورات، انجیل، زبور اور قرآن وغیرہ ہیں۔
2۔ جبکہ اکثر اوقات یہ وحی معناً نازل ہوتی یعنی اس میں الفاظ اللہ کے نہیں ہوتے تھے لیکن پیغام اللہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا مثلاًحضرت جبرائیل uکا آپ کو نمازوں کے اوقات‘ اسلام‘ایمان ‘احسان اور قیامت کی علامات کے بارے میں تعلیم دینا، حضرت ابراہیمuکو خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دینا، اللہ تعالیٰ کا کسی نبی علیہ السلام کے دل میں کوئی بات ڈال دیناوغیرہ۔
وحی کی پہلی قسم کو وحی متلو کہتے ہیں یعنی یہ وہ وحی ہے کہ جس کی تلاوت کی جاتی ہے جبکہ وحی کی دوسری قسم کو وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ بعض اوقات علماء وحی متلو کو ’وحی جلی‘ اور وحی غیر متلو کو ’وحی خفی‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔ وحی متلو ’قرآن‘ ہے جبکہ’ سنت ‘وحی غیر متلو ہے۔
سنت کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ کل کی کل اللہ ہی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سنت کا ایک بڑا حصہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اجتہاد فرمایا‘ بعد میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تقریر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اجتہاد کو شریعت کادرجہ حاصل ہو گیا۔ پس سنت بعض اوقات اللہ کی طر ف سے نازل ہوتی تھی اور بعض صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر اللہ کی تقریر کی شکل میں حکم شرعی کا درجہ حاصل کر لیتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور ایک عام امتی کے اجتہاد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک امتی کا اجتہاد صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اس لحاظ سے خاص تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی تصحیح کی ذمہ داری اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے لی ہوئی تھی لہذا اگر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اجتہاد پر اللہ کی طرف سے کوئی تصحیح آجائے تو علیحدہ بات ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر اجتہاد اللہ کی تقریر و تصویب سے شریعت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس مسئلے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے معاملات میں اجتہاد کیا ہے اور آپ کو اجتہاد کا حق حاصل تھا۔ البتہ علماء کا اس حوالے سے اختلاف ضرور نقل ہوا ہے کہ آپ کو کن مسائل یا شعبہ ہائے زندگی میں اجتہاد کا حق حاصل تھا۔ اس اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوئے امام زرکشی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أجمعوا علی أنہ کان یجوز لھم أن یجتھدوا فیما یتعلق بمصالح الدنیا وتدبیر الحروب ونحوھما وقد فعلوا ذلک کما قال سلیم وکذلک ابن حزم ومثلہ بإرادۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یصالح غطفان علی ثلث ثمار المدینۃ فھذا مباح لأن لھم أن یھبوا أموالھم ما أحبوا وکذلک قولہ فی تلقیح ثمار المدینۃ لأنہ یباح للمرء أن یلقح نخلۃ وأن یترکھا۔ ۔ ۔ فأما اجتھادھم فی أمر الشرع فاختلفوا أنہ ھل کان لھم أن