کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 9
کے تاریخی ارتقاء کا ایک مختصر سا جائزہ لیں گے اور اجتہاد کی صحیح ترین کو متعین کرنے کی کوشش کریں گے۔ اجتہاد کی پہلی تعریف اجتہاد کی سب سے پہلی تعریف جو تحریری شکل میں ہم تک پہنچی ہے وہ امام شافعی رحمہ اللہ متوفی ۲۰۴ھ کی ہے۔امام صاحب نے اجتہاد کا معنی ’قیا س‘ بیان کیاہے ۔وہ فرماتے ہیں : ’’قال فما القیاس أ ھو الاجتھاد أم ھما متفرقان۔قلت ھما إ سمان بمعنی واحد قال فما جماعھا قلت کل ما نزل بمسلم فقیہ حکم لازم ‘ أو علی سبیل الحق فیہ دلالۃ موجودۃ‘ وعلیہ إذا کان فیہ بعینہ حکم: اتباعہ‘ وإذا لم یکن فیہ بعینہ طلب الدلالۃ علی سبیل الحق فیہ باالاجتھاد والاجتھاد القیاس مستعمل ۔‘‘[1] ’’ سائل نے کہا: قیاس کیا ہے؟ کیا وہ اجتہادہے یا دونوں ایک دو سرے سے مختلف ہیں ؟میں نے کہا:وہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تو سائل نے کہا:ان دونوں کے جمع ہونے کی کیاصورت ہے ؟میں نے کہا: ہر سمجھدار مسلمان کے لیے اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی نازل ہوا یا تو وہ لازمی حکم ہے یا اس میں حق بات سے رہنمائی موجود ہے۔اور مسلمان کے ذمے ہے کہ جب ا سے وحی میں بعینہ کوئی حکم مل جائے تو اس کی اتباع کرے اور اگر وحی میں بعینہ کوئی حکم نہ ہو تو صحیح طریقے سے وحی میں اجتہاد کرتے ہوئے(اللہ کی دی ہوئی )رہنمائی تلاش کرے اور اجتہاد ہی قیاس ہے ۔ ‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف کو بعض دو سرے علماء نے بھی اختیار کیاہے ۔امام زرکشی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۴ھ لکھتے ہیں : ’’وحکی صاحب’’الکبریت الأحمر‘‘ عن بعضھم أن القیاس والاجتھاد واحد‘ لحدیث معاذ: ’’اجتھد رأیی‘‘ والمراد القیاس بالاجماع۔۔۔وقال ابن السمعانی : ھل القیاس والاجتھاد متحدان أو مختلفان؟ اختلفوا فیہ: فقال أبو علی بن أبی ھریرۃ : إنھما متحدان‘ ون سب للشافعی‘ وقد أشار إلیہ فی کتاب’الر سالۃ‘۔‘‘[2] ’’ ’الکبریت الأحمر‘کے مصنف نے لکھا ہے کہ بعض سلف صالحین کے نزدیک قیاس اور اجتہادایک ہی معنی میں ہے اور اس کی دلیل حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا: ’’اجتھد رأیي‘‘۔اور اس حدیث میں اجتہاد سے مراد بالاجماع قیاس ہے۔۔۔ابن سمعانی رحمہ اللہ نے کہا ہے: علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اجتہاد اور قیاس ایک ہی معنی میں ہیں یا مختلف ہیں ؟أبو علی بن أبی ہریرۃ رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ دونوں ایک ہی ہیں اور اس موقف کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف بھی کی گئی ہے ۔امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’الر سالۃ‘ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘ بعض أئمہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف پر اعتراض وارد کیا ہے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ متوفی ۵۰۵ھ لکھتے ہیں : ’’وقال بعض الفقھاء القیاس ھو الاجتھاد وھو خطأ لأن الاجتھاد أعم من القیاس لأنہ قد یکون بالنظر فی العمومات ودقائق الألفاظ و سائر طرق الأدلۃ سوی القیاس ثم أنہ لا ینبیء فی عرف العلماء إلا عن بذل المجتھد و سعہ فی طلب الحکم ولا یطلق إلا علی من یجھد نفسہ وی ستفرغ الو سع فمن حمل خردلۃ لا یقال اجتھد ولا ینبیء ھذا عن خصوص معنی القیاس بل عن الجھد الذی ھو حال القیاس فقط۔‘‘[3]
[1] الرسالۃ:ص۴۷۷ [2] البحر المحیط:۴؍ ۹ [3] المستصفی فی علم الأصول: ص۱۸۱