کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 7
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے:میں اپنی رائے سے(شرعی حکم معلوم کرنے کی)پوری کوشش کروں گا۔اجتہاد سے مراد کسی حکم کو تلاش کرنے کے لیے پوری طاقت صر ف کر دینااور یہ ’جہد‘ سے باب افتعال ہے کہ جس کا معنی طاقت ہے۔ اس سے مراد ہے کسی وقوعے کو‘ جو کسی حاکم کو پیش آتاہے ‘ قیاس کے طریق سے کتاب و سنت کی طرف لوٹا دینا۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں رائے سے مراد وہ رائے نہیں ہے جو انسان قرآن و سنت کی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہش سے دے ۔اور أم معبد رضی اللہ عنہا والی روایت میں ہے: ایک بکری ہے جس کو سخت مشقت نے بکریوں کے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] اور ’جہد‘[فتحہ کے ساتھ] حدیث میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔’جہد‘ اگرضمہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد کوشش اور طاقت ہوتی ہے اور فتحہ کے ساتھ اس سے مراد مشقت ہے ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد مبالغہ اور انتہاء ہے ۔ اور ایک قول یہ بھی کہ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] اور ’جہد‘[فتحہ کے ساتھ] دونوں ہی کوشش اور طاقت کے معنی میں ا ستعما ل ہو جاتے ہیں جبکہ جہد [فتحہ کے ساتھ] صرف مشقت ا ور انتہاء کے معنی میں مستعمل ہے۔أم معبد رضی اللہ عنہ والی روایت میں اس سے مراد کمزوری اور دبلا پن ہے ۔جہد [ضمہ کے ساتھ] کی مثال صدقہ والی حدیث میں ہے : آ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:غریب آدمی کا اپنی طاقت کے بقدرصدقہ کرنایعنی جتنا اس کے حالات اجازت دیتے ہیں اتنا صدقہ کرے۔جہد [فتحہ کے ساتھ] کی مثال دعا والی یہ حدیث ہے :اے اللہ تعالی! میں آپ کی سخت آزمائش یعنی مشقت والے حالات سے پناہ مانگتا ہوں ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:’جیش الع سرۃ‘میں مسلمان سخت مشقت اور تنگی میں تھے۔ا سی طرح اس کام میں ’جہد الرجل فھو مجہود‘کہا جاتا ہے جس میں کسی شخص کو مشقت لاحق ہو ۔غ سل والی روایت کے الفاظ ہیں :جب کوئی شخص اپنی بیوی کی چار شاخوں میں بیٹھ جائے اور پھر اس میں کوشش کرے یعنی اس کو دھکیلے۔کہا جاتا ہے: آدمی نے کسی معاملے میں کوشش کی یعنی اس میں خوب محنت کی ۔گنجے اور کوڑھی والے سے متعلق حدیث میں ہے:اللہ کی قسم! آج کے دن میں تم کو اس چیز میں مشقت میں نہیں ڈالوں گا جو تم اللہ کے لیے مجھ سے لو گے یعنی نہ تومیں تم پر سختی کروں گااور نہ تم سے وہ چیز لوٹاؤں گا جو تم اللہ کے لیے میرے مال میں سے لے لو گے۔ ‘‘ علامہ أبو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم المعروف بابن منظور أفریقی رحمہ اللہ متوفی۷۱۱ھ لکھتے ہیں : ’’الجَھْدُ والجُھْدُ الطاقۃ تقول اجھد جھدک وقیل الجَھْدُ المشقۃ والجُھْدُ الطاقۃ ۔۔۔وجَھَدَ یَجْھَدُ جَھْدًا واجْتَھَدَ کلاھما جدَّ۔۔۔والاجتھاد والتجاھد بذل الو سع المجھود وفی حدیث معاذ ’’ اجتھد رأیی‘‘ الإجتھاد بذل الو سع فی طلب الأمر وھو افتعال من الجھد الطاقۃ۔‘‘[1] ’’ ’جَہد ‘ اور ’جُہد‘ سے مراد طاقت ہے جیسا کہ اہل عرب کا قول ہے: تواپنی طاقت صرف کر ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’جَہد‘ سے مراد مشقت ہے اور’جُہد‘ سے مراد طاقت ہے ۔۔۔اور’جَھَدَ‘ باب فتح سے اور’اجتھد‘ باب افتعال سے دونوں کا معنی کوشش کرنا ہے ۔۔۔’اجتہاد ‘ اور ’تجاہد‘ سے مراد پوری طاقت و قوت کو خرچ کرنا ہے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا یعنی کسی مسئلے کو معلوم کرنے کے لیے اپنی طاقت صرف کروں گا۔ اجتہاد ’جہد‘ سے باب افتعال ہے اور طاقت کے معنی میں ہے ۔‘‘ علامہ أبو طاہر مجد الدین محمد بن یعقوب بن ابراہیم فیروز آبادی رحمہ اللہ متوفی ۸۱۶ھ لکھتے ہیں : ’’الجَھْدُ الطاقۃ ویضمُّ والمشقۃ واجھد جھدک ابلغ غایتک وجھد کمنع جدَّ کاجتھد ودابتہ ۔۔۔واللبن أخرج زبدہ کلہ۔‘‘[2] ’’ ’ جَھد‘ سے مراد طاقت ہے اور یہ ضمہ کے ساتھ’جُہد‘ بھی آتا ہے اور اس کا معنی مشقت ہے اور ’اجھد جھدک‘ کا معنی ہے تو اس کی انتہاء تک پہنچ جا اور ’جھد‘ کا باب ’منع‘ ہے اور اس کامعنی کوشش کرنا ہے جیساکہ’اجتھد‘ کا معنی بھی یہی ہے اور اہل عر ب کہتے ہیں ’جھد اللبن‘ یعنی اس نے دودھ کا تمام مکھن نکال لیا۔‘‘ علامہ محب الدین السید محمد مرتضی زبیدی حنفی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۰۵ھ لکھتے ہیں :
[1] لسان العرب:۳؍ ۱۳۳‘ ۱۳۵ [2] ترتیب القاموس المحیط:۱؍ ۵۴۵