کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 6
طرح پڑھا گیا ہے۔فراء رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ’جُہْد‘ سے مراد طاقت ہے جبکہ’ جَہد‘کامعنی اہل عرب کے قول’’ اِجْھَدْ جَھْدَکَ فی ھذا الأمر‘‘کے مطابق کسی معاملے میں اس کی آخری انتہاء تک پہنچناہے۔اور عرب’اِجْھَدْ جُھْدَک‘ نہیں کہتے۔’جَہْد ‘ سے مراد مشقت ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے: اس کے جانور نے مشقت اٹھائی اور اس نے ا سے مشقت میں ڈالا جبکہ وہ اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال دے ۔ا سی طرح اہل عرب کا قول ’جھد الرجل فی کذا‘ہے جس کا معنی ہے ‘آدمی نے اس معاملے میں بہت محنت کی اور اپنی کوشش میں انتہاء کر دی اور میں نے دودھ میں سے پورا مکھن نکال لیا اور اس طرح نکالے گئے مکھن کو ’مجہود‘ کہتے ہیں ۔۔۔ ’اجتہاد ‘اور’ تجاہد ‘ سے مراد کسی مسئلے میں طاقت اور مشقت صرف کرنا ہے ۔ ‘‘
علامہ أبو الحسن علی بن ا سماعیل ابن سیدہ رحمہ اللہ متوفی ۴۵۸ھ لکھتے ہیں :
’’الجُھْدُ والجَھْدُ: الطاقۃ‘ وقیل: الجُھْدُ: المشقۃ‘ والجَھْدُ: الطاقۃ۔۔۔وجَھَدَ یَجْھَدُ جَھْدًا‘ واجتھد‘ کلاھما جدّ۔‘‘[1]
’’ ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ]اور ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ]دونوں سے مراد طاقت ہے اور یہ بھی کہا گیاہے کہ ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] سے مراد طاقت ہے اور ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ] سے مراد مشقت ہے۔۔۔’جہد‘ اور ’اجتہد‘ دونوں کا معنی ہے: اس نے کوشش کی ۔‘‘
علامہ محمود بن عمر بن أحمدزمخشری متوفی ۵۳۸ھ لکھتے ہیں :
’’جھد نفسہ‘ ورجل مجھود‘ وجاء مجھودا قد لفظ لجامہ‘ وأصابہ جھد: مشقۃ۔۔۔وأقسم باللّٰہ جھد القسیم‘ وحلف جھد الیمین‘ واجتھد فی الأمر‘ وجاھد العدو۔‘‘[2]
’’ اس نے اپنے نفس کو تھکا دیا ‘اور تھکایا ہوا آدمی ‘اور وہ اس قدرتھکا ہوا آیا کہ اس نے اپنی تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے کام کو بھی چھوڑ دیا تھا۔اور اس کو ’جہد‘ یعنی مشقت پہنچی۔۔۔اور میں اللہ کی سخت قسم کھاتا ہوں ‘اور اس نے بھاری قسم کے ساتھ حلف اٹھایا ‘اور اس نے کسی کام میں کافی کوشش کی ‘اور اس نے دشمنوں سے جہاد کیا۔‘‘
علامہ مجد الدین محمد بن محمد بن محمد بن عبد الکریم شیبانی المعروف بابن أثیر الجزري رحمہ اللہ متوفی ۶۰۶ ھ لکھتے ہیں :
’’وفی حدیث معاذ ’’أجتھد رأیی‘‘ الاجتھاد: بذل الو سع فی طلب الأمر وھو افتعال من الجھد: الطاقۃ والمراد بہ: رد القضیۃ التی تعرض للحاکم من طریق القیاس إلی الکتاب و السنۃ۔ولم یرد الرأی الذی یراہ من قبل نفسہ من غیر حمل علی کتاب أو سنۃ۔ وفی حدیث معبد ’’شاۃ خلفھا الجھد عن الغنم‘‘قد تکرر لفظ الجھد والجھد فی الحدیث کثیرا وھو بالضم: الو سع والطاقۃ وبالفتح: المشقۃ۔وقیل المبالغۃ والغایۃ وقیل ھما لغتان فی الوسع والطاقۃ فأما فی المشقۃ والغایۃ فالفتح لا غیر ویرید بہ فی حدیث أم معبد: الھزال ومن المضموم حدیث الصدقۃ ’’أی الصدقۃ أفضل؟ قال: جُھْدُ المقل‘‘ أی قدر ما یحتملہ حال القلیل المال ومن المفتوح حدیث الدعاء ’’أعوذ بک من جھد البلاء‘‘ أی الحالۃ الشاقۃ وحدیث عثمان ’’والناس فی جیش العسرۃ مجھدون مع سرون‘‘یقال جھد الرجل فھو مجھود: إذا وجد مشقۃ ۔۔۔وفی حدیث الغسل ’’إذ جلس الرجل بین شعبھا الأربع ثم جھدھا‘‘ أی دفعھا وحفزھا یقال جھد الرجل فی الأمر: إذا جد فیہ وبالغ وفی حدیث الأقرع والأبرص ’’فو اللّٰہ لا أجھدک الیوم بشیء أخذتہ للہ‘‘ أی لا أشق علیک وأردک فی شیء تأخذہ من مالی للّٰہ تعالی۔‘‘[3]
[1] المحکم والمحیط الأعظم:۴؍ ۱۵۳
[2] أساس البلاغۃ: ص۲۵۴
[3] النھایۃ فی غریب الأثر: ۱؍ ۸۴۸