کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 58
عقیدے یا اخلاقیات کے جھگڑے کے بارے میں نہ تھا بلکہ ہر قسم کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کرو گے اور دو سری اہم بات یہ ہے کہ حکمران یا گورنرکی طرف اکثر و بیشتر‘ معاملات سے متعلقہ تنازعات ہی کے حل کے لیے لوگ رجوع کرتے ہیں ۔
ا سی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
’’یو شک الرجل متکئا علی أریکتہ یحدث بحدیث من حدیثی فیقول بیننا وبینکم کتاب اللّٰہ ما وجدنا فیہ من حلال ا ستحللناہ وما وجدنا فیہ من حرام حرمناہ وإن ما حرم ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم مثل ما حرم اللّٰہ ۔‘‘ [1]
’’(وہ زمانہ)قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ شخص کہے گا ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے پس جس کو اللہ کی کتاب نے حلال ٹھہرا دیا تو ہم بھی اس کو حلال سمجھیں گے اور جس کو ہم نے اللہ کی کتاب میں حرام پایا تو ہم بھی ا سے حرام قرار دیں گے(اور یہی ہمارے لیے کافی ہے)۔(خبردار!)بے شک جس کو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہے وہ ا سی طرح حرام ہے جی سے کسی شیء کو اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔ ‘‘
اس حدیث مبارکہ میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت میں بیان شدہ کسی بھی حلال یا حرام شیء کی حلت یا حرمت کے منکر کو ایک فتنہ پرور شخص قرار دیاہے۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پشین گوئی اس اعتبار سے سچ ثابت ہوئی ہے کہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں نام نہاد مفکرین اور عقلیت پسند احادیث ر سول کا کسی نہ کسی انداز سے انکار کرتے ہی رہے ہیں ۔بعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام روایات کا کلیتاً انکار کردیا جیسا کہ غلام احمد پرویز کا معاملہ تھا جبکہ بعض نے حدیث کے انکار کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیاجیسا کہ الطاف صاحب کا خیال ہے کہ اخلاق وعبادات سے متعلق روایات تو قابل قبول ہیں لیکن ان کے علاوہ معاشیات‘ سیا سیات‘ معاشرت‘ جہاد و قتال ‘ حدود و جنایات‘ قضاء ‘ طعام و قیام‘ لب اس و زینت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مروی احادیث قرآن کی ایسی تشریح تھی جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لیے واجب العمل تھی۔ یہ نکتہ نظر ان کی ایک ذاتی رائے ہے جس کی کوئی شرعی دلیل تاحال ان کو نہ مل سکی‘بلکہ دلیل تو ان کے اس نظریے کے خلاف قائم ہے جیسا کہ (
[1] جن علماء نے اس حدیث کی سند کو مقبول قرار دیا ہے ان کے نزدیک اس حدیث کی مقبولیت کے درجات مختلف ہیں۔امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’صحیح‘ کہا ہے۔شرح مشکل الآثار: ۹؍ ۲۱۲؛امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’صحیح مشھور‘ کہا ہے۔جامع بیان العلم و فضلہ: ۲؍ ۸۴۴؛ امام ابن العربی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’صحیح مشھور‘ کہا ہے۔عارضۃ الأحوذی: ۳؍ ۳۰۰؛ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے ’اسنادہ جید‘ کہا ہے۔ مجموع الفتاوی: ۱۳؍ ۳۶۴؛امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’اسنادہ جید‘ کہا ہے ۔تفسیر القرآن: ۱؍ ۱۳؛ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو قابل احتجاج قرار دیا ہے۔ إعلام الموقعین: ۱؍ ۱۸۳؛ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کو ’حسن الأسناد ومعناہ صحیح ‘ کہا ہے۔تلخیص العلل المتناھیۃ: ۲۶۹؛امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کو ’حسن لغیرہ معمول بہ‘ کہا ہے۔ الفتح الربانی: ۹؍ ۴۴۸۵؛ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے’ غریب وموقوف‘ کہا ہے۔موافقۃ الخبر الخبر:۱؍ ۱۱۹۔
اس روایت کی سند میں ایک راوی’ مبھم‘ہے لہٰذا یہ سند متصل نہیں ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حضرت معاذ t کے تمام اصحاب ثقہ تھے ۔اگر امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اس بات کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ روایت مرفوع ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ روایت’ موقوف‘ ہے کیونکہ ا س روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ ع نہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نہیں کررہے ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسے ’حسن لغیرہ‘ کہا ہے اور اگر اسے ’حسن لغیرہ‘مان لیاجائے تو اس کا معنی تو درست ہو گا لیکن اس کے الفاظ سے استدلال درست نہیں ہے اور یہی بات امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اور امام ابن العربی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس کی شہرت کی بنا پر’ صحیح‘ کہا ہے لہذاان کے نزدیک بھی یہ روایت معناً ’صحیح‘ ہے جبکہ اس کے الفاظ ثابت نہیں ہیں۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’جید‘ قرار دیا ہے اور ان کا مقصود بھی یہی ہے کہ اس روایت سے اجتہادکے جواز کو صرف اس وجہ سے رد نہیں کر دینا چاہیے کہ اس کی سند کمزور اور ’منقطع ‘ہے۔ نتیجہ یہی ہے کہ یہ روایت اپنی سند اور اصول حدیث کی روشنی میں تو ’ضعیف ‘ہے لیکن اپنی شہرت اور کئی ایک طرق کی وجہ سے ’حسن لغیرہ‘ کے درجے کو پہنچتی ہے اور معنی کے اعتبار سے’ صحیح‘ ہے۔
سنن ابن ماجۃ‘ کتاب المقدمۃ‘ باب تعظیم حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (۱۲)‘ ۱؍ ۶۔