کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 57
حیثیت دائمی نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات ہیں اور یہ احادیث صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے کے تہذیب و تمدن کے مسائل کے حل کے لیے ہی تھیں ۔ان کا کہنایہ بھی ہے کہ ان کی قبیل کے مجتہدین کو قرآن کی مجمل نصوص کی تشریحات آج کے احوال وظروف کی روشنی میں بذریعہ اجتہاد کرنی چاہئیں ۔حالانکہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور احادیث چاہے ان کا تعلق قرآن کے کسی مجمل حکم کی شرح سے ہو یا وہ قرآن کے علاوہ کسی نئے حکم کا ماخذ ہوں‘ہر دوصورتوں میں دائمی اور ناقابل تغیر حیثیت کی حامل ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّ سوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّ سوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحسن تَاْوِیْلاً ﴾[1]
’’اے اہل ایمان!اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے حکمرانوں کی بات مانو پس اگر کسی بھی مسئلے میں تمہارا(اپنے حکمرانوں سے)جھگڑا ہو جائے تو تم ا سے اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی قرآن و سنت)کی طرف لوٹا دو‘ اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتے ہو۔یہ بہت زیادہ بہتر اور انجام کار کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ’شیء‘ نکرہ وارد ہو اہے اور لغت عرب کایہ معروف قاعدہ ہے کہ جب نفی‘ نہی یا کسی ا سم شرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے یعنی پھر اس سے عموم بیان کرنا متکلم کا منشا ہوتا ہے۔[2] لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قسم کے مسئلے میں بھی اگر شرعی حکم کے حوالے سے بحث ہو جائے تو اس کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ جب اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا:
’’ فقال کیف تقضی فقال أقضی بما فی کتاب اللّٰہ قال فإن لم یکن فی کتاب اللّٰہ قال فبسنۃ ر سول اللّٰہ قال فإن لم یکن فی سنۃ ر سول اللّٰہ قال اجتھد رأیی۔‘‘[3]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:جو کتاب اللہ میں ہے ‘ اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اگروہ( مسئلہ صریحاًو تفصیلاً)کتاب اللہ میں نہ ہو ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا(کیونکہ اس میں صراحت اور تفصیل قرآن کی نسبت زیادہ ہے)۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ( مسئلہ صریحاً و تفصیلاً) سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں اپنی رائے(بنانے)میں اجتہاد(یعنی قرآن و سنت میں پوری کوشش و طاقت صرف )کروں گا۔‘‘
اس حدیث کی سندمیں اگرچہ بعض اہل علم نے کلام کیا ہے لیکن یہ روایت اپنے متن کے اعتبار سے ’صحیح‘ ہے۔[4]
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کہ’ تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ صرف
[1] النساء: ۴ : ۵۹
[2] الوجیز: ص۳۰۸
[3] سنن الترمذی‘ کتاب الاحکام عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی القاضی کیف تقضی(۱۳۲۷)‘ ۳؍ ۶۱۶۔
[4] بعض علماء نے اس کو ضعیف کہا ہے جبکہ بعض علماء نے اس کے الفاظ کی بجائے اس کے متن کی شہرت کو بنیاد بناتے ہوئے اس کو’ صحیح‘ قرار دیاہے ۔جن علماء نے اس حدیث کو موضوع یا ضعیف کہا ہے وہ درج ذیل ہیں:
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’باطل لا أصل لہ ‘ کہاہے۔ الإحکام فی أصول الأحکام: ۲؍ ۲۰۴؛امام جورقانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’باطل‘کہاہے۔ الأباطیل والمناکیر:۱؍ ۲۴۳؛امام ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسے ’ضعیف باجماع أھل النقل فیما أعلمہ‘ کہاہے۔البدر المنیر:۹؍ ۴۳۵؛ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ’لا یصح ولا یعرف‘ کا حکم لگایا ہے۔تہذیب ا لکمال:۴؍ ۵۳؛ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’ضعیف‘ کہا ہے۔ضعیف الترمذی:۱۳۲۷؛ ضعیف أبی داؤد: ۳۵۹۲؛امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’غیر متصل‘ کہا ہے۔ سنن الترمذی‘کتاب الاحکام عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی القاضی کیف تقضی۔