کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 54
فی مثل ھذہ المرأۃ بغیر ما أفتیت بہ۔فقام إلیہ عمر یضربہ بالدرۃ ویقول لہ: لم تستفتینی فی شیء قد أفتی فیہ ر سول اللّٰہ ؟۔‘‘[1] ’’ہشام بن یحی محزومی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بنو ثقیف سے ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے آپ سے اس عورت کے بارے میں مسئلہ پوچھا جو حائضہ ہو اوروہ قربانی والے دن بیت اللہ کا طواف کر چکی ہو تو کیا وہ سعی کرے گی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں ‘ اس ثقفی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: بے شک اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی عورت کے بارے میں مجھے اس کے علاوہ فتوی دیا ہے جو آپ دے رہے ہیں ‘تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اس کو درے سے مارنے لگے اور کہنے لگے:تم نے مجھ سے ایسے مسئلے کے بارے میں سوال ہی کیوں کیاکہ جس کے بارے میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم فتوی دے چکے تھے۔‘‘ تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں بھی اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کی موجودگی میں اجتہادیا قیاس کو جائز نہیں سمجھاجاتا تھا۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ’’ لا رأی لأحد مع سنۃ سنھا ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘[2] ’’اللہ کی ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بالمقابل کہ جس کو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا ہو‘ کسی کی رائے کا اعتبار نہیں ہو گا۔‘‘ ائمہ أربعہ کے نزدیک بھی حدیث کی موجودگی میں اجتہادجائز نہیں ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’إذا قلت قولاً یخالف کتاب اللّٰہ تعالیٰ و خبر الر سول فاترکوا قولی۔‘‘[3] ’’جب میں قرآن یا کسی خبر ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بات کروں تو میرے قول کو چھوڑ دو۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ’’إذا صح الحدیث فھو مذھبی۔‘‘[4] ’’جب حدیث’ صحیح‘ ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘ ا سی طرح امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’إنما أنا بشر أخطیٔ وأصیب‘ فانظروا فی رأیی فکل ما وافق الکتاب والسنۃ فخذوہ‘ وکل ما لم یوافق الکتاب والسنۃ فاترکوہ۔‘[5] ’’ سوائے اس کے نہیں میں تو ایک انسان ہونے کے ناطے صحیح رائے بھی پیش کرتا ہے اور غلطی بھی کرتا ہے۔ پس میری رائے میں غور کرو اگر وہ کتاب و سنت کے موافق ہو تو اس کو قبول کر لو اور اگر وہ کتاب و سنت کے موافق نہ ہو تو ا سے چھوڑ دو۔‘‘ ا سی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ أجمع الناس علی أن من ا ستبانت لہ سنۃ عن ر سول اللّٰہ لم یکن لہ أن یدعھا لقول أحد من النا س۔‘‘[6] ’’لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے لیے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح ہو جائے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں سے کسی ایک کے قول کی وجہ سے اس سنت کو ترک کر دے۔‘‘
[1] إعلام الموقعین: ۲؍ ۳۲۵ [2] أیضاً: ۱؍ ۸۲ [3] إیقاظ ھمم أولی الأبصار:ص۶۲ [4] رد المحتار: ۱؍ ۱۶۶ [5] جامع بیان العلم وفضلہ: ۲؍ ۳۲ [6] إعلام الموقعین: ۲؍ ۲۸۲