کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 53
ہوتا تو میرا اور اس عورت کا معاملہ مختلف ہوتا۔‘‘
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’ یرید واللّٰہ ور سولہ أعلم بکتاب اللّٰہ قولہ تعالیٰ ﴿ وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدَاتٍم بِاللّٰہِ﴾ ویرید بالشأن واللّٰہ أعلم أنہ کان یحدھا لمشابھۃ ولدھا للرجل الذی رمیت بہ‘ ولکن کتاب اللّٰہ فصل الحکومۃ و أ سقط کل قول و راء ہ ولم یبق للاجتھاد بعدہ موقع۔‘‘[1]
’’اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کے حکم سے مراد وہ آیت تھی جس میں یہ مذکور ہے کہ عورت چار قسمیں اٹھا کر اپنے سے حد کو دور کر دے گی اور معاملہ سے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت پر‘نومولود کی اس آدمی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے کہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی تھی‘ حد جاری کرتے‘ لیکن کتاب اللہ نے فیصلہ کن حکم جاری کر دیا تھااور اس کے علاوہ ہر حکم کو ساقط کر دیا تھااور کتاب اللہ کے اس حکم کے بعد کسی قسم کے اجتہادکی گنجائش نہ تھی۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حدیث کی عدم موجودگی میں اجتہادکر لیتے تھے لیکن جب ان کو حدیث کا علم ہوتا تھاتو فورا ًاپنے اجتہاد سے رجوع کر لیتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرز عمل کے بارے میں ہمیں کئی ایک أحادیث میں رہنمائی ملتی ہے جیسا کہ ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے فرماتے ہیں :
’’کان عمر بن الخطاب یقول الدیۃ للعاقلۃ ولا ترث المرأۃ من دیۃ زوجھا شیئاً حتی قال لہ الضحاک بن سفیان کتب إلی ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أن أورث امرأۃ أشیم الضبابی من دیۃ زوجھا فرجع عمر۔‘‘[2]
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ کہا کرتے تھے کہ دیت صرف عاقلہ کے لیے ہے اور بیوی کے لیے اپنے شوہر کی دیت سے کچھ حصہ نہیں ہے یہاں تک کہ ایک دفعہ ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف خط لکھا تھا کہ میں أشیم ضبابی رضی اللہ عنہ کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دوں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کے اپنے قول سے رجوع فرما لیا۔‘‘
امام خطابی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں :
’’وإنما کان عمر یذھب فی قولہ الأول إلی ظاہر القیاس وذلک أن المقتول لا تجب دیتہ إلا بعد موتہ وإذا مات بطل ملکہ فلما بلغتہ السنۃ ترک الرأی وصار إلی السنۃ۔‘‘[3]
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے قول میں ظاہر قیاس کی پیروی کی اور وہ یہ ہے کہ مقتول کی دیت اس وقت واجب ہوتی ہے جب کہ وہ مر جائے اور جب وہ مر گیا تو اس کی ملکیت ختم ہو گئی۔لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک حدیث پہنچی تو انہوں نے اپنی رائے کو چھوڑ دیا اور سنت کی پیروی کی ۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’رفع الملام‘میں خلفائے راشدین ] کے کئی ایسے واقعات جمع کر دیے ہیں جن کے مطابق انہوں نے حدیث معلوم ہونے کے بعد اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔امام ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی’إعلام الموقعین‘میں اس قسم کے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’عن ھشام بن یحی المحزومی أن رجلا من ثقیف أتی عمر بن الخطاب فسألہ عن امرأۃ حاضت وقد کانت زارت البیت یوم النحر‘ ألھا أن تنفر؟ فقال عمر: لا‘ فقال لہ الثقفی: إن ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أفتانی
[1] إعلام الموقعین: ۲؍ ۳۲۴
[2] سنن أبی داؤد‘ کتاب الفرائض‘ باب فی المرأۃ ترث دیۃ زوجھا(۲۹۲۷)‘ ۲؍ ۱۴۴۔
[3] عون المعبود:۸؍ ۱۰۳