کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 52
ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾[1] ’’اہل ایمان کا تو یہی قول ہونا چاہیے کہ جب بھی انہیں اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایاجائے کہ وہ ان کے درمیان کسی مسئلے کا فیصلہ کریں تو وہ یہ کہیں :ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ لَہٗ غَیْبُ ال سمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَبْصِرْ بِہٖ وَ اَ سمِعْ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا ﴾[2] ’’اللہ ہی کے لیے زمین وآ سمانوں کے غیب کا علم ہے۔ کیا ہی خوب اللہ کا دیکھنا اور سننا ہے۔ ان کا اللہ کے سوا کوئی بھی ولی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراتا۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ [3] ’’اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی لوگ توکافر ہیں ۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾[4] ’’اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی لوگ توظالم ہیں ۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾[5] ’’اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پس وہی لوگ توفا سق ہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت ہلال بن أمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر ایک شخص شریک بن سحماء کے ساتھ زنا میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان صحابی رضی اللہ عنہ کا الزام سنا تو فرمایا کہ گواہیاں پیش کرو‘ ورنہ میں تم پر حد قذف جاری کروں گا۔ اس پر وہ صحابی رضی اللہ عنہ کہنے لگے :اے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اپنی بیوی کو کسی کے ساتھ ملوث دیکھوں تو کیا میں لوگوں کو تلاش کرتا پھروں کہ وہ آ کرمیری بیوی کی بدکاریاں دیکھیں ۔ اس کے بعد لعان کی آیات نازل ہوئیں تو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو بلوایا اورمیاں بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی ایک جماعت کے سامنے ایک دو سرے کے خلاف قسمیں کھائیں ۔جب عورت قسمیں کھا چکی تو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی میں علیحدگی کرواتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرمایا: ’’أبصروھا‘ فإن جاء ت بہ أکحل العینین سابغ الألیتین خدلج الساقین فھو لشریک بن سحماء۔ فجاء ت بہ کذالک‘ فقال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم لولا مامضی من کتاب اللّٰہ لکان لی ولھا شأن۔‘‘[6] ’’تم اس بچے پر غور کرنا‘ اگر تو وہ سرمئی آنکھوں والا‘ بڑے چوتڑوں والا اور موٹی و بھری ہوئی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بھی سحماء کا ہو گا‘ پس اس عورت نے انہی خصوصیات والا بچہ جنا تو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ کی کتاب میں اس کے بارے میں حکم بیان نہ ہو چکا
[1] النور:۲۴ : ۵۱ [2] الکہف:۱۸ : ۲۶ [3] المائدۃ: ۵ : ۴۴ [4] المائدۃ:۵ : ۴۵ [5] المائدۃ: ۵ : ۴۷ [6] سنن أبی داؤد‘ کتاب الطلاق‘ باب فی اللعان(۲۲۵۴)‘ ۱؍ ۶۸۴۔