کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 51
تھیں جیسا کہ ہزاروں محدثین کی زندگیاں اس کام میں لگیں ۔ یہ کام شاید اس وقت کی ضرورت تو تھا لیکن اس سے بھی اہم کام وہ تھا جس کی طرف امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے توجہ دی اور وہ یہ کہ لوگوں کو درپیش مسائل میں ان کی رہنمائی کی جائے۔ لہذا ان أئمہ وقت نے اپنے مسالک کی بنیاد ظاہر قرآن پر رکھی اور احادیث کے رد و قبول کے چند موٹے موٹے اصول وضع کر لیے تاکہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیاجائے۔شیخ عاصم الحداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب رحمہم اللہ کے زمانہ میں عراق بدعات‘ خواہشات پر مبنی باطل نظریات اور سیا سی و کلامی فرقوں کے مابین سخت کش مکش کی آماجگاہ بناہوا تھااور اس میں جھوٹ زوروں پر تھاحتی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی اس سے محفوظ نہ رہی تھیں اور ان حدیث کی چھان پھٹک کرنا‘ ان کے راویوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی سندوں پر غور و فکر کر کے صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع احادیث سے الگ کرناکوئی آ سان کام نہ تھا۔ اس لیے ان حضرات اپنا زیادہ تر اعتماد قرآن پر رکھاجو قطعی الثبوت تھااور اس کے ظواہر و عمومات پر انہوں نے کوئی پابندی نہ لگائی ۔ اس کے بعد انہوں نے اخبار آحاد کو ۔جو انہیں ملی۔قرآن پر پیش کیااگر انہیں اس کے خلاف نہ پایا تو انہیں قبول کر لیااور ان پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھی ‘ بغیر اس کے کہ وہ ان کی سندوں پربھی غور کرتے اور ان کے راویوں کے حالات بھی معلوم کرتے ۔یہ کام یقینا انہوں نے احتیاط اور تقوی کے پہلو سے انجام دیا‘ مبادا کہ وہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کر دیں جو قرآن کے خلاف ہو۔اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کی محنتوں کو درجہ قبولیت بخشے کہ وہ ان حالات میں یہی کر سکتے تھے اور یہی انہوں نے کیا۔وہ معذور تھے اور ان کے اجتہادکا انہیں یقینا اجر ملے گا۔اگر صحیح ہوا تو دہرا اجراور اگر غلط ہوا تو اکہرا اجر۔‘‘[1] جس طرح کسی ڈاکٹر کے لیے یہ عیب کی بات نہیں کہ وہ انجینیئر نہیں ہے ا سی طرح ایک فقیہ کے لیے بھی یہ عیب نہیں ہے کہ وہ کوئی بڑا محدث نہیں ہے۔ چوتھی قسم ان نصوص کی ہے جو ظنی الثبوت و ظنی الدلالۃ ہیں یعنی وہ اخبار آحاد کہ جن کے معنی و مفہوم میں علماء کا اختلاف ہو تو ان کے معنی کے تعین میں اجتہادہو سکتا ہے جیسا کہ ہم دو سری قسم میں اس کا حکم ذکر کر چکے ہیں ۔ نصوص کی موجودگی میں اجتہاد کسی نص کی موجودگی میں یعنی اس کونظر انداز کرتے ہوئے اجتہادیا قیاس کرناجائز نہیں ہے۔قرآن و سنت ‘ صحابہ رضی اللہ عنہم ‘تابعین رحمہم اللہ اور أئمہ سلف کی آراء کے مطابق نص کی موجودگی میں قیاس یا اجتہاد کرنا حرام اور شرعاًممنوع ہے۔ اس قسم کے اجتہاد کی حرمت کے بیان میں ہم ذیل میں چند آیات بطور دلیل نقل کر رہے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَ سوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ﴾[2] ’’ کسی بھی مومن مرد و عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسئلے کا فیصلہ کر دیں تو ان کے لیے ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی ہواور جس نے اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے : ﴿ یاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَ سوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ سمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾[3] ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو‘ بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ اِِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذَا دُعُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ وَرَ سوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُوْلٰٓئِکَ
[1] أصول فقہ پر ایک نظر : ص۶۰۔۶۱ [2] الأحزاب: ۳۳ : ۳۶ [3] الحجرات: ۴۹ : ۱