کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 50
اختلاف ہوتا ہے اور عملی احکام میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں ۔‘‘ تیسری قسم کی نصوص وہ ہیں جو ظنی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہیں مثلاً ًوہ اخبار آحاد کہ جن کے معنی و مفہوم پر امت کا اجماع ہے تو ان نصوص کے معنی کی تعیین میں اجتہادکی گنجائش نہیں ہے۔ اس قسم کی نصوص میں ان کے ثبوت و عدم ثبوت یا قبول و رد کے اعتبار سے تحقیق کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فإذا کانت نصوصاً ظنیۃ الثبوت‘ وھذہ تکون فی السنۃ‘ بحث المجتھد عن مدی ثبوت النص ومقدار صحۃ سندہ وقوتہ والوثوق برواتہ والرکون إلیھم‘ ونحو ذلک مما یقتضیہ البحث والنظر‘والمجتھدون یختلفون فی ھذہ المسائل اختلافاً کبیراً‘ فقد یثبت ھذا حدیث عند مجتھد ولا یثبت عند مجتھد آخر فلا یعمل بہ۔‘‘[1] ’’ پس جب نصوص ظنی الثبوت ہوں اور ایسا عموما ً سنن میں ہوتا ہے تو ایک مجتہد اس نص کے ثبوت تک پہنچنے‘ اس کی سند کی مقدار و قوت صحت کو جانچنے‘ اس کے راویوں پر اعتماد کرنے اور ان کو ثقہ قرار دینے میں اپنی صلاحیت کو کھپائے گا اور اس قسم کی بحث و تحقیق‘ کہ جس کی ضرورت ہو‘میں وہ اجتہاد کرے گا۔مجتہدین کا اس قسم کے مسائل میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا ہے مثلاً ایک حدیث ایک مجتہد کے نزدیک صحیح ہوتی ہے اور دو سرے کے نزدیک صحیح نہیں ہوتی لہذا اس کے نزدیک اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘ اکثر و بیشتر معاصر علماء و فقہاء نے کسی حدیث کو اس کے ردو قبول کے معیارات پر جانچنے کو بھی اجتہادکہا ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ اجتہاد نہیں ہے کیونکہ سلف صالحین کی متفق علیہ تعریف کے مطابق اجتہاد احکام شرعیہ کی تلاش کا نام ہے نہ کہ نصوص شرعیہ کی تلاش۔ کسی حدیث کو مقبول یا مردود قرار دینے کے لیے ایک مجتہد کی جدوجہد ا ستخراج یا استنباط کے طریقے سے کسی حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ در حقیقت نص کی تلاش ہے اور نص کی تلاش کو أئمہ سلف اجتہاد شمار نہیں کرتے اور جب یہ اجتہاد نہیں ہے تو کسی حد یث کی سند کی تحقیق ’ مجال الاجتھاد‘میں داخل نہ ہو گی۔ پس اگر ہم حدیث کی سند کی تحقیق کو بھی اجتہاد شمار کریں گے تو تمام محدثین اور أئمہ جرح و تعدیل بھی مجتہدین قرار پائیں گے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر کوئی مجتہدکافی بھاگ دوڑ کے بعد اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ زیر تحقیق روایت ’صحیح ‘ہے تو اب اس روایت سے جوحکم شرعی ثابت ہو گا وہ اس روایت کی نص سے ثابت ہو گا‘نہ کہ مجتہد کے اجتہاد سے ہو گا۔ دو سری بات یہ ہے کہ مجتہدین کا اصل میدان نصوص شرعیہ سے احکام کا استنباط و ا ستخراج ہے نہ کہ احادیث کی تصحیح و تضعیف۔ کسی حدیث کی صحت و ضعف یا ردو قبول میں اہل فن یعنی أئمہ جرح و تعدیل و أئمہ محدثین کا قول معتبر ہو گا نہ کہ فقہاء کا۔امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنے زمانوں میں روایت کی جانے والی احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے کچھ اصول وضع کیے تھے جو اس وقت کے حالات کے مطابق بالکل صحیح تھے لیکن حدیث کی تحقیق کے لیے دائمی اصول وضع کرنا ان حضرات کے پیش نظر نہ تھاکیونکہ حدیث کی تحقیق و تخریج ان کی علمی کاوشوں کا میدان نہیں تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی سلطنت میں جغرافیائی اعتبار سے بہت و سعت آئی ۔مختلف اقوام ‘ قبائل‘ مذاہب اور تہذیب وتمدن کے حامل افراد نے اسلام قبول کیا۔ عرب و عجم کے اختلاط سے نت نئے مسائل پیش آنے لگے‘ جن کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی ۔دو سری طرف آئے روز نئے نئے فتنے بھی پیدا ہو رہے تھے مثلاًخوارج کا فتنہ‘ معتزلہ کا فتنہ‘عبد اللہ بن سبا کا فتنہ‘ احادیث گھڑنے کا فتنہ وغیرہ ۔اسلام کے بنیادی مصادر یعنی قرآن و سنت میں سے اس وقت قرآن تومحفوظ صورت میں موجود تھا جبکہ احادیث ہر جگہ روایت ہو رہی تھیں لیکن ا ن کی تصحیح و تضعیف ‘ بحث و تحقیق یا چھان پھٹک کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ایک کام تو اس وقت یہ تھا کہ احادیث کی تدوین‘ راویوں کی جرح و تعدیل‘ ا سناد کی چھان پھٹک کا کام ائمہ وقت کرتے لیکن یہ دو چار ماہ کا کام نہیں تھا بلکہ اس میں زندگیاں کھپانی پڑنی
[1] الوجیز:ص۴۰۶