کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 5
المعنی‘ قال: والجُھْدُ: شیء قلیل یعیش بہ المقل علی جھد العیش۔قال اللّٰہ عز وجل ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ ﴾ علی ھذا المعنی قال: والجَھْدُ أیضاً: بلوغک غایۃ الأمر الذی لاتألو عن الجھد فیہ تقول: جھدت جھدی واجتھدت رأیی ونفسی حتی بلغت مجھودی ابن السکیت: الجھد: الغایۃ۔ وقال الفراء: بلغت بہ الجھد: أی الغایۃ‘ واجھد جھدک فی ھذا الأمر: أی ابلغ فی غایتک وأما الجُھْدُ فالطاقۃ‘ یقال: اجھد جھدک قال: وجھدت فلانا: بلغت مشقتہ‘ وأجھدتہ علی أن یفعل کذا وکذا‘ وأجھد القوم علینا فی العداوۃ وجاھدت العدو مجاھدۃ۔‘‘[1]
’’ لیث رحمہ اللہ سے کہا ہے کہ’جہد‘ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ انسان کو کوئی بیماری یا سخت کام لاحق ہواورا سی سے ’مجہود‘ کا لفظ بھی بنا ہے۔لیث رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’جہد‘ کا لفظ عربی لغت میں ا سی معنی میں ہے ۔لیث رحمہ اللہ نے کہا ہے : ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ ] اس تھوڑی سی چیز کو کہا جاتا ہے کہ جسے ایک مفل س انسان سخت مشقت سے حاصل کرتا ہے اور پھر اس پر اس کی زندگی کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان’’ وہ لوگ سوائے اپنی محنت و مشقت کی تھوڑی سی کمائی کے اور کچھ نہیں پاتے‘‘ بھی ا سی معنی میں ہے۔لیث رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’جہد‘ سے مراد تیرا کسی ایسے کام کی انتہاء تک پہنچ جانا جس کے لیے تم نے کوئی ک سر نہ اٹھا رکھی ہو‘جیسا کہ تم کہتے ہو: میں نے خوب کوشش کی اور میں نے اپنی رائے اور اپنی جان کو پوری طرح کھپا دیا یہاں تک کہ میں نے اپنی ساری طاقت لگادی۔ابن سکیت رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ’جہد‘ سے مراد’انتہاء‘ ہے۔اور فراء نے کہا ہے : میں نے ا سے انتہاء تک پہنچا دیااور تو اس معاملے میں خوب کوشش کر یعنی اس کی انتہاء تک پہنچ جا۔اور ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] سے مراد طاقت ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تو اپنی طاقت لگا۔میں نے فلاں کو تھکا ڈالا یعنی مشقت میں ڈالا اور میں نے فلاں کو فلاں کام پر مجبور کیااور قوم نے ہم سے بھرپور دشمنی کی اور میں دشمن کے ساتھ پوری کوشش سے لڑا۔‘‘
امام احمد بن فار س بن زکریا المعروف بابن فار س رحمہ اللہ متوفی ۳۹۵ھ لکھتے ہیں :
’’جھد الجیم والھاء والدال أصلہ المشقۃ ثم یحمل علیہ ما یقاربہ یقال جھدت نفسی وأجھدت والجُھْدُ الطاقۃ قال اللّٰہ تعالی﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُھْدَھُمْ ﴾ ویقال إن المجھود اللبن الذی أخرج زبدہ ولا یکاد ذلک إلا بمشقۃ ونصب۔‘‘[2]
’’ ’ جہد‘ کا مادہ جیم ‘ھاء اور دال ہے اور اس مادے کا بنیادی معنی مشقت ہے پھر اس کا اطلاق مشقت سے ملتے جلتے قریبی معانی پر بھی ہونے لگا جیسا کہ کہا جاتا ہے تو نے مجھے مشقت میں ڈالا اور میں مشقت میں پڑا۔ اور ’جُہْد‘ سے مراد طاقت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور جو لوگ اپنی طاقت کے علاوہ کچھ نہیں پاتے ۔ا سی طرح کہا جاتا ہے کہ’مجہود‘ وہ دودھ ہے کہ جس کا مکھن نکال لیا گیا ہو اور یہ مکھن بغیر مشقت اور تھکاوٹ کے نہیں نکلتا۔‘‘
ابو نصر ا سماعیل بن حماد الفارابی الجوہری رحمہ اللہ متوفی ۳۹۸ھ لکھتے ہیں :
’’الجَھْدُ والجُھْدُ الطاقۃ وقریٔ ﴿ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جَھْدَھُم وجُھْدَھُمْ ﴾ قال الفراء الجُھْدُ بالضم الطاقۃ والجَھْدُ بالفتح من قولک اِجْھَدْ جَھْدَکَ فی ھذا الأمر أی اُبْلُغْ غایتک ولا یقال اِجْھَدْ جُھْدَکَ ۔والجَھْدُ المشقۃ یقال جھد دابتہ وأجھدھا إذا حمل علیھا فی ال سیر فوق طاقتھا وجھد الرجل فی کذا أی جدَّ فیہ وبالغ و جھدت اللبن فھو مجھود أی أخرجت زبدہ کلہ ۔۔۔و الاجتھاد والتجاھد بذل الو سع والمجھود۔‘‘[3]
’’ ’ جَہْد‘ اور’جُہْد‘ سے مراد طاقت ہے اور قرآن کی آیت مبارکہ﴿ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جَھْدَھُم وجُھْدَھُمْ ﴾ کو دونوں
[1] تھذیب اللغۃ:۱؍ ۶۷۵
[2] معجم مقاییس اللغۃ:ص۲۲۷
[3] تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ:۲؍ ۴۶۰۔۴۶۱