کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 49
بدلیل قطعی الثبوت‘ قطعی الدلالۃ‘ مثل وجوب الصلوات الخم س‘ والصیام‘ والزکاۃ‘ والحج‘ والشھادتین وتحریم جرائم الزنا وال سرقۃ وشرب الخمروالقتل وعقوباتھا المقدرۃ لھا‘ مما ھو معروف بآیات القرآن و سنۃ الر سول علیہ الصلاۃ والسلام القولیۃ والفعلیۃ‘ ومثلھا أیضا کل العقوبات أوالکفارات المقدرۃ ‘ فإنہ لا مجال للاجتھاد فیھا‘ ففی قولہ تعالی: ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ ﴾ لا یتأتی الاجتھاد فی عدد الجلدات ‘ وقولہ سبحانہ و تعالی: ﴿ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ﴾ لا مجال للاجتھاد فی المقصود من الصلاۃ أو الزکوۃ ‘ بعد أن بینت السنۃ الفعلیۃ المراد منھما۔‘‘[1]
’’جن مسائل میں اجتہادجائز نہیں ہے ان میں دین کے بدیہی اور ضروری معلوم مسائل شامل ہیں یا وہ مسائل جو قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ ہیں مثلاً پانچ نمازوں کا فرض ہونا‘ روزے‘ زکوۃ اور حج کا فریضہ‘ دو گواہوں کی شہادت‘ زنا سے متعلقہ جرائم کی حرمت‘ چوری کرنے‘ شراب پینے اور قتل کرنے کی حرمت‘ ا سی طرح ان جرائم کی سزائیں ‘ اور یہ سب کچھ قرآن و اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و فعلی سنت میں معروف طور پر موجود ہے۔ ان تمام مسائل میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ کے قول کہ’’ زانی مرد و عورت دونوں میں سے ہر ایک کو ایک سو کوڑے مارو‘‘ میں کوڑوں کی تعداد میں اجتہاد نہیں ہو سکتا‘ اور سبحانہ و تعالیٰ کے قول کہ’’تم نماز قائم کوا اور زکوۃ ادا کرو‘‘میں بھی ’صلاۃ‘ اور’ زکوۃ‘ کا مفہوم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں اصطلاحات کے معنی و مراد کو اپنے عمل سے خوب اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔‘‘
دو سری قسم کی نصوص وہ ہیں جو قطعی الثبوت و ظنی الدلالۃ ہوں ۔ان نصوص کا معنی ومفہوم متعین کرنے میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وإذا کان النص ظنی الدلالۃ‘ کان الاجتھاد فیہ البحث فی معرفۃ المعنی المراد من النص وقوۃ دلالتہ علی المعنی‘ فربما یکون النص عاماً وقد یکون مطلقاً‘ وربما یرد بصیغۃ الأمر أو النھی‘ وقد یرشد الدلیل إلی المعنی بطریق العبارۃ أو الاشارۃ أو غیرھما‘ وھذا کلہ مجال الاجتھاد‘ فربما یکون العام باقیاً علی عمومہ ‘ وربما یکون مخصصاً ببعض مدلولہ‘ والمطلق قد یجری علی اطلاقہ وقد یقید‘ والأمر وإن کان فی الأصل للوجوب فربما یراد بہ الندب أو الإباحۃ‘ والنھی وإن کان حقیقۃ فی التحریم‘ فأحیاناً یصرف إلی الکراھۃ۔۔۔وھکذا والقواعد اللغویۃ ومقاصد الشریعۃ ھی التی یلجأ إلیھا لترجیح وجھۃ عما عداھا‘ مما یؤدی إلی اختلاف وجھۃ نظر المجتھدین واختلاف الأحکام العملیۃ تبعاً لھا۔‘‘[2]
’’اور جب کوئی نص ظنی الدلالۃ ہو تو اس میں اجتہاد اس نص کے معنی کی معرفت یا اس کے الفاظ کی اپنے معنی پر دلالت کی قوت کی تلاش میں ہو گا۔بعض اوقات کوئی نص عام ہوتی اور بعض اوقات مطلق ہوتی ہے۔بعض اوقات کوئی نص امر یا نہی کے صیغے میں ہوتی ہے اور بعض اوقات اپنے معنی پر دلالت عبارت یا دلالت اشارہ وغیرہ کے طریق سے رہنمائی کر رہی ہوتی ہے اور یہ سب اجتہاد کا میدان ہے۔بعض اوقات کوئی عام اپنے عموم پر باقی ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنے بعض مدلول کے اعتبار سے مخصوص ہوتا ہے۔مطلق بعض اوقات اپنے اطلاق پر باقی رہتا ہے اور بعض اوقات مقید ہوتا ہے۔أمرکا صیغہ جو کہ درحقیقت وجوب کے لیے ہے بعض اوقات ا ستحباب اور اباحت کے لیے بھی آ جاتا ہے اور نہی کا صیغہ اگرچہ حقیقت میں تحریم کے لیے ہے لیکن بعض اوقات کراہت کے لیے بھی آ جاتا ہے۔۔۔اور ا سی طرح اور بھی قواعد و ضوابط ہیں ۔ایک مجتہد قواعد لغویہ عربیہ اور مقاصد شریعہ کی روشنی میں کسی ایک احتمال کو باقی احتمالات پر ترجیح دیتا ہے اور ا سی بنیاد پر مجتہدین کا
[1] أصول الفقہ الإسلامی: ۲؍ ۱۰۵۳
[2] أیضاً