کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 48
ہے۔کیمرہ کی تصویر کہ جس میں اللہ کی تخلیق کو بعینہ کسی کاغذ یا پردہ سکرین پر منتقل کر دیا جاتا ہے‘ وہ بھی اس تصویر میں داخل ہے یا نہیں کہ جس کی حرمت احادیث مبارکہ میں آئی ہے‘ یہ اجتہاد کامیدان ہے۔ اس مسئلے میں ا سی عالم کا اجتہاد معتبر ہو گا جو کیمرے اور ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر میں فرق کو جدید سائن سی علوم کی روشنی میں سمجھتا ہو۔ہمارے ہاں غلطی یہ ہوئی کہ عربی زبان میں کیمرے کی تصویر کے لیے بھی تصویر کالفظ ا ستعما ل کیاجانے لگا جس سے علماء کو یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ شاید احادیث میں کیمرے کی تصویر کی حرمت وارد ہوئی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آج آئینے میں نظر آنے والے عکس کا نام عربی زبان میں تصویر رکھ لیا جائے اور اس عکس پر تصویر کے لفظ کا اطلاق ہونے لگے ‘ اب کچھ عرصے بعد علماء کی ایک جماعت صرف اس بنیاد پر کہ عربی میں آئینے کے عکس کو بھی تصویر کہا جاتا ہے ‘ اس کو حرام قرار دیں تو کوئی بھی صاحب عقل اس کوایک در ست طرز عمل قرار نہیں دے گا۔ڈاکٹر یو سف قرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’علی المجتھد أن یکون ملماً بثقافۃ عصرہ‘حتی لا یعیش منعزلاً عن المجتمع الذی یعیش فیہ ویجتھد لہ‘ ویتعامل مع أھلہ۔ومن ثقافۃ عصرنا الیوم: أن یعرف قدراً من علوم النفس والتربیۃ والاجتماع والاقتصاد والتاریخ وال سیا سۃ والقوانین الدولیۃ ونحوھا من الدرا سات الإن سانیۃ‘ التی تکشف لہ الواقع الذی یعایشہ ویعاملہ۔‘‘[1] ’’مجتہد کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے کی ثقافت سے واقف ہواور اس کا معاملہ ایسا نہ ہو کہ جس معاشرے کے مسائل کے لیے وہ اجتہاد کر رہا ہو وہ اس سے کہیں علیحدہ بیٹھا اپنی زندگی گزار رہا ہو۔ہماری آج کل کی ثقافت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایک مجتہد نفسیات‘ علوم تربیت‘ سماجی علوم‘ معاشیات‘ تاریخ ‘ علم سیا ست اور ملکی قوانین وغیر ہ جی سے انسانی تجرباتی علوم سے آگاہ ہوکیونکہ یہ تمام علوم ایسے ہیں جو ایک مجتہد کے لیے اس مسئلے اور واقعے کو اچھی طرح کھولتے ہیں کہ جس میں وہ اجتہاد کر رہا ہوتا ہے۔‘‘ ا سی طرح اسلامی بینکاری کے بارے میں فتوی دیتے وقت ایک عالم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بینکوں کی تاریخ کیاہے‘ بینک کیسے کام کرتا ہے ‘ اس کے اہداف و مقاصد کیا ہیں وغیرہ ۔ہمارے نزدیک جدید مسائل میں نصف اجتہاد’فقہ الواقع‘ کے علم کا نام ہے۔ پس آدھا اجتہاد قرآن و سنت سے کسی حکم کا اخذ کرنا ہے اور باقی اجتہاد یہ ہے کہ اس حکم کا کسی واقعے یا حادثے پر اطلاق کیسے کیا جائے۔ قرآن و سنت سے مستنبط شدہ احکام کی تطبیق اس وقت تک کسی زیر بحث مسئلے میں در ست نہیں ہو گی جب تک کہ ایک مجتہد کی اس سے متعلق جمیع پہلوؤں پرگہری نظر نہ ہو۔ اجتہاد کا دائرہ کار اجتہاد کے دائرہ کار پر ہم مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے غور کر سکتے ہیں ۔ذیل میں ہم اجتہاد کے دائرہ کار کومنصوص اورغیر منصوص مسائل کے تناظر میں بیان کریں گے۔ نصوص میں اجتہاد کا دائرہ کار قرآن و سنت کی نصوص چار قسم پر ہیں : پہلی قسم ان نصوص کی ہے جو قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ ہیں ۔قطعی الثبوت نصوص میں قرآن مجید‘ خبر متواتر اور ایسی خبر واحد شامل ہے کہ جس کو تلقی بالقبول حاصل ہو جیساکہ صحیحین کی روایات ہیں ‘جبکہ عام اخبار آحاد ظنی الثبوت ہیں ۔ اگر کوئی نص قطعی الثبوت ہو اور اس کا معنی بھی قطعی ہو تو اس میں اجتہادکی گنجائش نہیں ہے۔ کسی نص کے قطعی الدلالۃ ہونے کی صورت یہ ہے کہ اس نص کے مفہوم پر علماء کا اجماع منعقد ہو گیا ہو یا وہ ضروریات دین سے متعلق ہو۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’أما مالا یجوز الاجتھاد فیہ: فھو الأحکام المعلومۃ من الدین بالضرورۃ والبداھۃ‘ أو التی تثبت
[1] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص۴۸