کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 47
ومعلماً۔‘‘[1] ’’جن شرائط ِاجتہاد پر علماء کا اتفاق ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجتہد عادل ہو‘ اللہ سے ڈرنے والا ہو‘ اچھی سیرت کا حامل ہو‘ دین کو دنیا کے بدلے میں بیچنے والا نہ ہو‘ کیونکہ ایک فا سق ‘ دین سے کھیلنے والے اورجھوٹی شہرت کے پیچھے چلنے والے سے یہ گمان نہیں کیا سکتا کہ وہ اللہ کی شریعت کے معاملے میں مفتی ‘ مبلغ یا معلم ہونے کے پہلو سے اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر سمجھتے ہوئے حد درجے محتاط ہو۔‘‘ یہ شرط بھی اجتہاد کی صحت کے لیے نہیں بلکہ اس کی قبولیت کے لیے ایک بنیادی معیار ہے۔ڈاکٹر یو سف قرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والحقیقۃ أن ھذا الشرط لیس مطلوباً لبلوغ رتبۃ الاجتھاد‘ بل لقبول اجتھاد المجتھد وفتواہ عند المسلمین‘ فقد یبلغ العاصی درجۃ الاجتھاد إذا حصل شروطہ العلمیۃ‘ وفی ھذہ الحالۃ یکون اجتھادہ لنفسہ صحیحاً‘ أما لغیرہ فلا۔‘‘[2] ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ شرط درجہ اجتہادتک پہنچنے کے لیے مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ شرط کسی مجتہد کے اجتہاد اور فتوی کوم سمانوں میں قبولیت کا درجہ دینے کے لیے لگائی گئی ہے۔اگر کسی فا سق میں اجتہاد کی شرائط مکمل ہوں تو وہ بھی درجہ اجتہاد کو پہنچ جاتا ہے‘ اس فا سق کا اجتہاداپنی ذات کے لیے تو صحیح ہو گا لیکن غیر کے لیے قبولیت کے اعتبار سے صحیح نہ ہوگا۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں فا سق کی خبر پر اندھا اعتماد کرنے کی بجائے اس کی تحقیق کا حکم د یاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَا سقٌم بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا﴾[3] ’’اے اہل ایمان! اگر کوئی فا سق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔‘‘ ایک مجتہد بھی درحقیقت اللہ کی طرف سے خبر دے رہا ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے لہذا اس کی یہ خبر صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی‘ ا سی لیے فا سق کے اجتہادکو قبول کرنے سے منع کیاگیاہے۔ بارہویں شرط مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فقہ الواقع کا علم رکھتا ہویعنی جدید مسائل میں فتوی دیتے وقت وہ اس مسئلے کی واقعاتی صورت حال اور نوعیت سے اچھی طرح واقف ہومثلاً کلوننگ جائز ہے یا نہیں ‘ اس کے بارے میں اجتہاد کرتے وقت ایک مجتہد کے ضروری ہے وہ یہ جانتا ہو کہ خود کلوننگ کیاہے؟کیونکہ جب تک کلوننگ کی وضاحت نہ ہو گی اس وقت تک اس کے بارے میں بڑے سے بڑا مجتہد بھی صحیح رائے پیش نہیں کر سکتا۔ایک عالم سے جب ایک شخص نے یہ مسئلہ پوچھا کہ’ افراط زر‘ جائز ہے یا نہیں ‘ تو وہ عالم کہنے لگے ‘ میں سوچ میں پڑگیا اور اس نتیجے تک پہنچاکہ’ افراط‘ کا معنی زیادتی ہے اور’ زر‘ کا معنی دولت ہے لہذا ’افراط زر‘ کا معنی ہوا دولت کو بڑھانا۔ پس اسلام ہمیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ ہم اپنی دولت میں اضافہ کریں ۔وہ عالم اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے یہ سوچتے ہوئے اس شخص سے کہا کہ افراط زر جائز ہونا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ’ افراط زر‘ علم معاشیات کی اصطلاح ہے لہٰذا جب تک ایک عالم دین اس اصطلاح سے اچھی طرح واقف نہ ہو‘ وہ اس کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں کیسے صحیح رائے تک پہنچ سکتاہے ؟۔ ہمارے نزدیک کیمرے اور ٹیلی ویژن کی براہ را ست تصویر کے بارے میں اجتہاد کرتے وقت ایک عالم کے لیے تصویرکی اس جدید شکل کو سائن سی اسلوب میں سمجھنا أز بس ضروری ہے۔احادیث میں جن تصاویر کی حرمت آئی ہے‘ ظاہر ہے وہ ہاتھ سے بنائی ہو ئی تصاویر تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیمرہ نہیں تھا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ ہاتھ سے بنائی ہو ئی تصویر اور کیمرے سے بنائی ہوئی تصویر میں بہت فرق ہے۔ہاتھ سے بنائی ہو ئی تصویر انسانی ذہن کی ذاتی تخلیق ہے ا سی لیے احادیث میں تصویر کی حرمت میں اصل علت اللہ کی تخلیق کی مشابہت کو قرار دیا گیا
[1] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص۴۹ [2] أیضاً [3] الحجرات: ۴۹ : ۶