کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 46
موجود نہیں ہے ۔یہ حضرات عام نصوص کی طرف رجوع نہیں کرے اور نہ ہی اس مقصد پر غور کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے أمراء پر زکوۃ فرض کی ہے۔ پس ان حضرات کے نزدیک لاکھوں ریال‘ ڈالر اور پاؤنڈ میں زکوۃ فرض نہیں ہے جب تک کہ وہ مال تجارت کی شکل میں ہو‘ ہاں ا گر اس مال تجارت کو سونے یا چاندی سے تبدیل کر لیا جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ فرض ہو گی۔‘‘
د سویں شرط
ایک مجتہد میں اجتہادکا فطری ملکہ بھی موجود ہونا چاہیے ۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وھناک شرط‘ ھو فی رأینا‘ شرط ضروری وإن لم ینص علیہ الأصولیون صراحۃ‘ وھو أن یکون عند العالم ا ستعداد فطری للاجتھاد‘ بأن تکون لہ عقلیۃ فقھیۃ مع لطافۃ ادراک‘ وصفاء ذھن‘ ونفاذبصیرۃ ‘ وحسن فھم‘ وحدۃ ذکاء۔إذ بدون ھذا الا ستعدا د الفطری لا ی ستطیع الشخص أن یکون مجتھدا وإن تعلم آلۃ الاجتھاد التی ذکرناھا فی شروطہ‘ لأنھا إذا لم تصادف ا ستعدادافطریاً للاجتھاد لا تجعل الشخص مجتھدا۔ولیس فی قولنا ھذا غرابۃ ‘ فإن تعلم الانسان اللغۃ العربیۃ وعلومھا وأوزان الشعر لا تجعلۃ شاعرا إذ لم یکن عندہ ا ستعداد فطری للشعر۔‘‘[1]
’’ہماری نظر میں اجتہادکی ایک اور شرط ‘ جسے اگرچہ اصولیوں نے صراحتاًبیان نہیں کیا‘ یہ ہے کہ کسی عالم میں اجتہاد کی فطری ا ستعداد موجود ہو۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس میں فقہی سوجھ بوجھ ہو اور اس کے مزاج میں علم و فہم کی باریکی ہو‘ اس کا ذہن(ہر قسم کے تعصب وتاثر سے)صاف ہو‘ بصیرت سے کام لینے والا ہو‘فہم عمدہ ہواور ذہین ہو۔ اس فطری ا ستعداد کے بغیر ایک شخص مجتہد نہیں بن سکتا اگرچہ وہ ان تمام علوم سے واقف ہو کہ جن کا ذکرعموما اجتہاد کی شرائط میں کیا جاتا ہے کیونکہ یہ شرائط اجتہاد جب تک کسی عالم میں موجود اجتہاد کی فطری ا ستعداد سے مل نہ جائیں اس وقت تک اس عالم کو مجتہد نہیں بناتیں ۔ہمارا یہ قول کوئی عجیب بات نہیں ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک شخص اگر عربی زبان سے متعلقہ علوم(نحو ‘ صرف‘ بیان‘ معانی‘ بدیع‘ ادب وغیرہ)کو حاصل کر لے اور شعروں کے اوزان(علم العروض) سے بھی واقف ہوتو یہ چیز اس کو شاعر نہیں بنا دیتی جب تک کہ اس میں شعر کہنے کی فطری ا ستعداد موجود نہ ہو۔‘‘
یہ بات قابل غور ہے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ہیں ‘ جن میں اجتہاد کی تمام شرائط پائی جاتی تھیں لیکن پھر بھی ان کا شمار فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم یا مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کے طور پر نہیں ہوتاہے۔ پس اس مسئلے میں اختلاف ہو سکتا ہے کہ کوئی صحابی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے یا نہیں ؟جیسا کہ حضرت أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ کہنا در ست نہیں ہے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو چیز باقی صحابہ رضی اللہ عنہم سے ممتاز کرتی ہے وہ یہی ملکہ اجتہاد ہے جو ان میں باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت بہت زیادہ تھا‘ جہاں تک باقی شرائط اجتہاد کا معاملہ ہے تو وہ شرائط بعض دو سرے صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بالمقابل بدرجہ أولی موجود تھیں جیسا کہ بہت سی ایسی روایات کا أئمہ محدثین نے تذکرہ کیا ہے کہ جن کا علم عام صحابہ رضی اللہ عنہم کو تھا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہ احادیث معلوم نہ تھیں ۔ان میں بعض روایات کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’رفع الملام عن أئمۃ الأعلام‘میں اشارہ کیا ہے۔
گیارہویں شرط
اجتہاد کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ مجتہد عادل ہو ‘ فا سق و فاجر نہ ہو۔ڈاکٹر یو سف قرضای حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ومن الشروط التی اتفق علیھا الأصولیون: أن یکون المجتھد عدلا مرضی ال سیرۃ یتقی اللّٰہ تعالی‘ ویتحری الحق‘ ولایبیع دینہ بدنیاہ‘ فضلاً عن دنیا غیرہ‘ لأن الفا سق والمتلاعب بالدین‘ والذی یجری وراء الشھرۃ الزائفۃ‘ لا یؤتمن علی شرع اللّٰہ أن یقوم فیہ مقام النبی صلي اللّٰه عليه وسلم مفتیاً ومبلغاً
[1] الوجیز:ص۴۰۵