کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 45
کااجماع کا دعوی کرنا اور چیز ہے جبکہ اس مسئلے میں اجماع کا بالفعل واقع ہونا بالکل ایک علیحدہ معاملہ ہے۔
نویں شرط
اجتہاد کی نویں شرط مصالح ومقاصد ِشرعیہ کا علم ہے ۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ومن شروط الاجتھاد معرفۃ مقاصد الشریعۃ وعلل الأحکام ومصالح النا س‘ حتی یمکن استنباط الأحکام التی لم تنص علیھا الشریعۃ ‘ بطریق القیا س‘ أو بناء علی المصلحۃ وعادات الناس التی ألفوھا فی معاملاتھم وتحقق مصالحھم‘ ولھذا کان من لوازم مراعاۃ مصالح الناس وا ستنباط الأحکام بناء علیھا: الإحاطۃ بأعراف وعادات النا س‘ لأن مراعاتھا مراعاۃ مصالحھم الشرعیۃ۔‘‘[1]
’’اجتہاد کی شروط میں سے ایک شرط مقاصد شریعت‘ احکام کی علل اور لوگوں کی مصالح کا علم بھی ہے تاکہ ایک مجتہد ان مسائل میں کہ جن میں کوئی صریح نص موجود نہ ہو‘قیاس ‘مصلحت اور اس عرف و عادت کی بنیاد پر ‘کہ جس کو لوگوں نے اپنے معاملات کے لیے یا مصالح کے حصول کے لیے وضع کیاہے‘ کوئی شرعی حکم مستنبط کر سکے۔لہذا لوگوں کی مصالح کا خیال رکھنے اور ان کی بنیاد پر احکام شرعیہ کا استنباط کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ ایک مجتہد لوگوں کے رواج و عادت سے بھی واقف ہو کیونکہ کسی شرعی مسئلے میں لوگوں کے عرف و عادت کے لحاظ رکھنے سے مراد ان کی مصالح شرعیہ کا لحاظ ہے۔‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ نے اس شرط کے حوالے سے’الموافقات‘میں مفصل اور عمدہ بحث کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مجتہد مصالح و مقاصد شرعیہ کا لحاظ رکھے بغیر بھی اجتہادکرتے ہوئے مجتہد ہی کہلائے گا لیکن اجتہاد کی صحت سے اس شرط کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اس شرط کی اہمیت کا اندازہ ان مجتہدین کی اجتہادی کاوشوں کا تنقیدی جائزہ لینے سے خوب واضح ہو تا ہے جو اس شرط کے قائل نہیں ہیں ۔مثال کے طور پر امام ابن حزم رحمہ اللہ کی کتاب’المحلی‘کے بہت سے فتاوی‘ کہ جن کی بنیاد ظاہری نصوص پر رکھی گئی ہے اور ان میں مصالح و مقاصد شرعیہ کا ذرا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا‘ ایسے ہیں کہ ان کو پڑھنے کے بعد ایک مجتہد کے لیے اس علم سے واقفیت کی اہمیت کااحساس بڑھ جاتا ہے۔ڈاکٹر یو سف قرضاوی حفظہ اللہ ایک ایسے ہی فتوے کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’الانسان یمکن أن یبلغ مرتبۃ الاجتھاد‘ وإن لم یراع المقاصد‘ ویغلب علیہ الخطأ‘ وإن کان صاحبہ معذورا‘ بل مأجورا‘ مثل الذین صلوا العصر فی بنی قریظۃ بعد المغرب‘ أخذا بحرفیۃ النص دون مقصود۔أضرب ذلک مثلاً بما ذھب إلیہ ابن حزم ومن وافقہ أن عروض التجارۃ لا زکوۃ فیھا‘ وإن بلغت قیمتھا الألوف وألوف الألوف! وذلک لأنہ لم یثبت لدیہ نص خاص فی زکوۃ التجارۃ‘ ولم یلتفت النصوص العامۃ‘ وإلی مقصد الشارع من إیجاب الزکوۃ علی الأغنیاء‘ فأعفی بذلک ملایین الریالات والدنانیر والجنیھات من الزکوۃ الواجبۃ‘ إلا إذا تحولت العروض إلی مال سائل من الذھب أو الفضۃ وحال علیہ الحول۔‘‘[2]
’’ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ مقاصد کا لحاظ نہ رکھتا ہو‘ لیکن پھر بھی درجہ اجتہادپر فائز ہو‘ ایسا مجتہد عموما خطا کرتا ہے لیکن ایسی خطا پر وہ معذور اور عند اللہ مأجور ہوگا‘جیسا کہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا معاملہ ہے جنہوں نے عصر کی نماز بنو قریظہ میں مغرب کے بعد پڑھی تھی۔ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری الفاظ کو دلیل بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصود کی پرواہ نہیں کی۔میں اس کی مثال کے طور پر امام ابن حزم رحمہ اللہ اور ان کی موافقت کرنے والے بعض علماء کی رائے بیان کرتا ہوں جن کے نزدیک مال تجارت میں زکوۃ نہیں ہے اگرچہ مال تجارت ہزاروں یا لاکھوں میں ہو۔ اس کی وجہ یہ حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ مال تجارت میں زکوۃ کی ادائیگی کے بارے کوئی صریح نص
[1] الوجیز فی أصول الفقہ: ص۴۰۵
[2] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص۴۶