کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 44
کے قواعد و ضوابط وغیر ہ کے بارے میں بھی یہی علم بحث کرتا ہے۔‘‘ ایک شخص أ سالیب اجتہاد سے واقف نہیں ہو گا تو ظاہریہ کے منہج پر چلتے ہوئے بہت سے مسائل میں متکلم کے مقصود سے بہت دور چلا جائے گا۔اپنے اجتہاد کی بنیاد ظاہری نصوص پر رکھے گا اور جہاں کوئی ظاہر نص نہ ملے گی وہاں عقل کے گھوڑے دوڑانا شروع کر دے گا۔لہٰذا ایک ایسا مسئلہ کہ جس کا حل شرعی نصوص کی گہرائیوں میں موجود ہو گا ‘ اس میں وہ اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بالمقابل اپنا حکم پیش کرر ہاہو گا یعنی نص کی موجودگی میں اجتہاد ہو گا جو حرام ہے۔ ایک معاصر مجتہد کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ وہ اصول فقہ کی ان کتابوں کو اپنے مطالعے میں ضرور رکھے کہ جن میں اجتہادکے طرق و أ سالیب کے کے حوالے سے تخلیقی کام موجود ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی ’الر سالۃ‘امام شاطبی رحمہ اللہ کی’الموافقات‘امام ابن حزم رحمہ اللہ کی’الإحکام فی أصول الأحکام‘امام ابن قیم رحمہ اللہ کی’إعلام الموقعین‘ وغیرہ ہیں ۔علاوہ ازیں أئمہ اربعہ کے اصول فقہ سے واقفیت حاصل کرنے کے امام جصاص رحمہ اللہ کی ’الفصول فی الأصول‘امام جوینی رحمہ اللہ کی’البرھان‘امام غزالی رحمہ اللہ کی’المستصفی‘علامہ آمدی رحمہ اللہ کی’الإحکام‘امام ابن رشد رحمہ اللہ کی ’الضروری فی أصول الفقہ‘امام سرخسی رحمہ اللہ کی’أصول ال سرخسی‘امام زرکشی رحمہ اللہ کی’البحر المحیط‘امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی’المسودۃ‘امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی’الروضۃ الندیۃ‘اور امام شوکانی رحمہ اللہ کی’إرشاد الفحول‘ بھی اہم مصادر میں شامل ہوتی ہیں ۔ آٹھویں شرط مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے مابعد کے زمانوں میں علمائے سلف کے اجماعی موقفات سے واقف ہو‘تاکہ وہ کسی ایسے مسئلے میں اجتہادنہ کرے جس میں علمائے امت کا اجماع ہوچکا ہو۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وعلی المجتھد أن یعرف مواضع الإجماع حتی یکون علی بینۃ منھا‘ فلا یخالفھا فی المسائل التی یتصدی لبحثھا والاجتھاد فیھا۔‘‘[1] ’’مجتہد کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مواضع اجماع کو جانتاہویہاں تک وہ ان سے اچھی طرح واقف ہو‘تاکہ جن مسائل میں اس نے اجتہاد کرناہے یا ان میں وہ بحث و تحقیق کی طرف توجہ دیتا ہے‘ اجماع کے مخالف نہ ہوں ۔‘‘ ایک مجتہد کے لیے مواضع اجماع سے واقفیت کی شرط کیوں لگائی گئی ہے؟۔ ڈاکٹر عیاض بن نامی السلمی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لأن مخالفۃ الإجماع محرمۃ ویکفی أن یعرف أن المسألۃ التی ینظر فیھا لی ست من مسائل الإجماع ولا ینبنی حکمھا علی مسألۃ مجمع علیھا۔‘‘[2] ’’کیونکہ اجماع کی مخالفت حرام ہے اور مواضع اجماع سے اس قدر واقفیت شرط ہے کہ جس مسئلے میں مجتہد غور کر رہا ہو اس کے بارے میں ا سے صرف اتنا علم ہو کہ یہ مسئلہ اجماعی مسائل میں سے نہیں ہے اور مجتہد کسی ایسے مسئلے پر اپنے حکم کی بنیاد نہ رکھے جو مجمع علیہ ہو۔‘‘ مواقع اجماع سے واقفیت ان علماء کے نزدیک اجتہادکی شرط تو ہو سکتی ہے جو اجماع کی حجیت کے قائل ہیں لیکن وہ متجددین جو عصر حاضر میں اجتہاد کے داعی ہیں ان کی اکثریت اجماع کو شرعی حجت ہی نہیں مانتی چہ جائیکہ کہ وہ اجماع کو مجتہد کی شرائط میں شمار کریں ۔یہ بات در ست ہے کہ بعض اوقات بعض علماء کسی مسئلے میں اجماع کا دعوی کر دیتے ہیں حالانکہ وہ مجمع علیہ مسئلہ نہیں ہوتاجیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’مراتب الإجماع‘میں بہت سے مسائل پر اجماع امت کا دعوی کیا ہے جبکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کتاب پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کئی ایک مسائل میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے دعوی اجماع کا رد کیا ہے اور اس مسئلے میں علماء کا اختلاف بھی ثابت کیاہے۔لہذا کسی مسئلے میں کسی عالم
[1] الوجیز:ص۴۰۵ [2] أصول الفقہ الذی لا یسع الفقیہ جھلہ:ص۳۰۸