کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 43
کتاب اللہ کے علم میں آیات کے نا سخ و منسوخ ‘ قراء ات قرآنیہ‘ اصول تفسیر‘ متشابہ و محکم آیات‘اسباب نزول‘ علوم قرآن‘ تفسیری احادیث‘ تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ اور سلف صالحین کی تفا سیر پر ایک گہری نظر بھی شامل ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے قرآن کے فہم سے متعلقہ علوم کی تقریبا أسی(۸۰)اقسام کا ذکراپنی کتاب’الإتقان‘میں کیا ہے۔ایک مجتہد کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن فہمی سے متعلقہ ضروری علوم آلیہ اور ان کی بنیادی اصطلاحات سے اس قدر واقف ہوکہ کسی مسئلے میں اجتہاد کرتے وقت وہ ان علوم کی طرف رجوع کر سکے۔جو بھی شخص قرآن کی آیات کے علم کے بغیر اجتہاد کرے گا وہ اپنے اجتہاد میں کتاب اللہ کی مخالفت کرے گا جو جائز نہیں ہے لہٰذ امجتہد کے لیے قرآنی آیات کا علم ضروری شرط ہے۔ چھٹی شرط مجتہد کی چھٹی شرط یہ ہے کہ وہ حدیث و سنت اور ان سے متعلقہ ضروری علوم سے واقف ہو۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بأن یعرف المجتھد صحیحھا من ضعیفھا‘ وحال رواتھا‘ ومدی عدالتھم وضبطھم و ورعھم وفقھھم ‘ ویعرف متواتر السنۃ من مشھورھا وآحادھا‘ وأن یفھم معانی الأحادیث وأ سباب ورودھا‘ ویعرف درجات الأحادیث فی الصحۃ والقوۃ وقواعد الترجیح فیما بینھا‘ والنا سخ والمنسوخ منھا۔ولایشترط أن یعرف جمیع الأحادیث بل یکفیہ أن یعرف منھا أحادیث الأحکام۔‘‘[1] ’’مجتہد’ صحیح‘ اور ’ضعیف‘ حدیث میں تمیز کر سکے‘ راویوں کے احوال‘ ان کی عدالت‘ضبط‘ تقوی اور سوجھ بوجھ کو جان سکے۔متواتر‘مشہور اور آحاد کے فرق کو جانتاہو۔احادیث کے معانی اور ان کے وارد ہونے کے اسباب سے واقف ہو۔صحت و قوت کے اعتبار سے احادیث کے مختلف درجات اور ان میں ترجیح کے قواعد سے واقف ہو ۔حدیث کے نا سخ و منسوخ کا عالم ہو۔ایک مجتہد کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ تمام احادیث کو جانتا ہو بلکہ اس کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ احکام سے متعلقہ احادیث کا علم رکھتا ہو۔‘‘ اگر کوئی شخص قرآن کا علم تو رکھتا ہو لیکن اس کے پاس احادیث کا علم نہ ہو تو وہ ایسا اجتہاد کرے گا جو صریح روایات کے خلاف ہو گا۔ا سی طرح اگر کوئی شخص حدیث کا علم تو رکھتا ہو لیکن صحیح و ضعیف میں تمیز نہ کر سکتا ہو تو ایسا شخص بھی ضعیف و موضوع روایات کی بنیاد پر اجتہاد کرتا رہے گا جو عین ممکن ہے کہ بعض صحیح روایات یا قرآن کے بھی خلاف ہو۔علاوہ ازیں حدیث کے نا سخ و منسوخ کے علم کے بغیر مجتہدمنسوخ روایات پر اپنے اجتہاد کی بنا رکھ سکتا ہے۔لہذا متن ِحدیث کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ حدیث سے متعلقہ علوم میں بھی ر سوخ ضروری ہے تاکہ اجتہاد صحیح ہو۔ ساتویں شرط مجتہد کے لیے ساتویں شرط یہ ہے کہ وہ اصول و ا سالیب ِاجتہاد سے واقف ہو۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’علم أصول الفقہ ضروری لکل مجتھد وفقیہ ‘ کما ذکرنا فی المقدمۃ‘ إذ بھذا العلم یعرف المجتھد أدلۃ الشرع وترتیبھا فی الرجوع إلیھا وطرق استنباط الأحکام منھا‘ وأوجہ دلالات الألفاظ علی معانیھا وقوۃ ھذہ الدلالات‘ وما یقدم منھا وما یؤخر‘ وقواعد الترجیح بین الأدلۃ إلی غیر ذلک مما یبحثہ علم أصول الفقہ۔‘‘[2] ’’ہر مجتہد اور فقیہ کے لیے اصول فقہ کا علم حاصل کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہم اس کتاب کے مقدمہ میں اس بات کاذکر کر چکے ہیں ۔کیونکہ یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک مجتہد مصادر شریعت‘ ان کی ترتیب اور ان سے احکام کے ا ستباط کے طریقے کی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ا سی طرح الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت ‘ اس دلالت کی قوت‘ اس کی مختلف اقسام میں تقدیم و تاخیراور دلائل شرعیہ میں ترجیح
[1] الوجیز: ص۴۰۳ [2] أیضاً: ص۴۰۵