کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 42
العربی علی نحو جید‘ لا سیما وإن نصوص الکتاب والسنۃ وردت فی غایۃ البلاغۃ والفصاحۃ والبیان‘ فلا یمکن فھمھا حق الفھم وتذوق معانیھا وإدارک ما تدل علیہ إلا بمعرفۃ اللغۃ العربیۃ والإحاطۃ بأ سالیبھا فی التعبیروأ سرارھا البلاغیۃ والبیانیۃ۔‘‘[1] ’’مجتہد پر یہ لازم ہے کہ وہ اس طرح عربی زبان کو جانتا ہو کہ ا سے اہل عرب کے کلام کو سمجھنے‘ ان کی زبان کے مفردات کے معانی اور ان کی زبان کے اسلوب تعبیر پر قدرت حاصل ہو‘یا تو اس کو یہ قدرت فطرتاً حاصل ہو یا وہ علوم لغویہ عربیہ مثلاً صرف ‘ نحو‘ بلاغہ‘ أدب‘ معانی اور بیان کا علم حاصل کرے۔ ان علوم عربیہ کی تحصیل ایک مجتہد کے لیے ضروری ہے کیونکہ شرعی نصوص عربی زبان میں وارد ہوئی ہیں ۔ اور ان کا فہم اور ان سے احکام کا ا ستفادہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ عربی زبان کو اچھی طرح سے نہ سمجھ لیا جائے ۔خاص طور پر قرآن و سنت کی نصوص میں تو انتہائی درجے میں فصاحت‘ بلاغت اور بیان موجود ہے۔ پس قرآن و سنت کا حقیقی فہم‘ ان کے معانی کامزہ چکھنا اور ان کی مراد تک پہنچناعربی زبان کی معرفت‘ اس کے ا سالیب تعبیر اور اس کے بلاغی و بیانی ا سرارو رموز کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘‘ عربی زبان کی معرفت سے مراد کس قدر معرفت ہے؟ اس بارے أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ولا یلزم أن یصل فی معرفۃ اللغۃ إلی مرتبۃ الخلیل و سیبویہ والأصمعی وغیرھم من أئمۃ العلوم العربیۃ بل یکفیہ القدر اللازم لفھم النصوص فھماً صحیحاً۔‘‘[2] ’’مجتہد کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ امام خلیل‘ سیبویہ اور أصمعی رحمہم اللہ وغیرہ جی سے أئمہ لغت جتنی زبان کی معرفت رکھتا ہو بلکہ ایک مجتہد کے لیے اس قدر عربی زبان کی معرفت کافی ہے جو نصوص کا صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے لازم ہو۔‘‘ پانچویں شرط اجتہاد کی پانچویں شرط کتاب اللہ کی معرفت ہے جو شریعت ا سلا میہ میں أصل الأصول کی حیثیت کی حامل ہے ۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ومن شروط الاجتہاد التی تلزم المجتھد معرفۃ الکتاب‘ إذ ھو أصل الأصول ومرجع کل دلیل‘ فلا بد للمجتھد أن یعرف آیاتہ جمیعاً معرفۃ إجمالیۃ ‘ ویعرف آیات الأحکام فیہ معرفۃ تفصیلیۃ ‘ لأن من ھذہ الآیات ت ستنبط الأحکام الشرعیۃ العملیۃ‘ وقد قدرھا بعض العلماء بخم س مئۃ آیۃ۔والحق: إن آیات الأحکام غیر محصورۃ بھذا العدد‘ إذ یمکن بالنظر الدقیق والتأمل العمیق والإدراک الجید استنباط الأحکام من الآیات الأخری حتی لو کانت فی القصص والأمثال۔وعلی کل حال فلا یلزم المجتھد حفظ آیات الأحکام بل یکفیہ أن یعرف موضعھا من الکتاب حتی ی سھل علیہ الرجوع إلیھا وقت الحاجۃ۔‘‘[3] ’’مجتہد کی لازمی شرائط میں سے ایک شرط کتاب اللہ کی معرفت بھی ہے کیونکہ وہ أصل الأصول اور ہر دلیل کا مصدر و مرجع ہے۔ پس ایک مجتہد کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ قرآن کی تمام آیات کو اجمالی طور پر جانتا ہو اور آیات احکام کو تفصیلی طور پر جانتا ہو کیونکہ ان آیات سے عملی شرعی احکام مستنبط ہوتے ہیں ۔ بعض علماء نے ان آیات احکام کی تعداد پانچ صد بھی بتائی ہے۔حق بات یہ ہے کہ یہ آیاتِ احکام کسی عدد میں محصور نہیں ہیں کیونکہ گہرے غورو فکر اور عمدہ فہم سے اور بہت سی آیات مثلاً قصص اور امثال کی آیات سے بھی احکام نکالے جا سکتے ہیں ۔مجتہد کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ اس کو آیات احکام زبانی یاد ہو بلکہ اس کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ وہ کتاب اللہ میں آیات احکا م کی جگہوں سے واقف ہوتاکہ ضرورت کے وقت سہولت کے ساتھ ا ن آیات کی طرف رجوع کر سکے۔‘‘
[1] الوجیز فی أصول الفقہ: ص۴۰۲ [2] أصول التشریع الإسلامی:ص۱۰۳ [3] الوجیز: ص۴۰۳