کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 41
جائیکہ کہ وہ دو سروں کے لیے قابل تقلید و نمونہ بنے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’رفع القلم عن ثلاثۃ: عن المجنون المغلوب علی عقلہ حتی یفیق وعن النائم حتی ی ستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم۔‘‘[1]
تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ایک سویاہوا شخص یہاں تک کہ وہ بیدا رہو جائے۔ دو سرا بچہ ہے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور تیسرا مجنون یہاں تک کہ وہ ہوش میں آ جائے۔‘‘
امام ذہبی‘ امام حاکم اور علامہ ألبانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو’ صحیح‘ کہا ہے۔[2]
لہذ ااگر کوئی شخص درجہ اجتہادتک پہنچ گیا اور پھر کسی وقت اس کی عقل جاتی رہے یا اس پر جنون طاری ہو جائے یا کوئی اس کو زبرد ستی شراب پلا کر نشہ کی کیفیت میں لے آئے تو ایسی تمام صورتوں میں اس عالم کی طر ف سے دیئے گئے فتاوی شرعاً معتبر نہ ہوں گے۔
تیسری شرط
مجتہد کے لیے تیسری شرط جسے بعض فقہاء نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد بالغ ہو۔ اس شرط کی دلیل کے طور پر بھی مذکورہ بالا روایت بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق ایک بچہ بلوغت سے پہلے کسی قسم کی سزا کا مکلف نہیں ہوتا۔
اس حدتک تو بات در ست ہے کہ بلوغت سے کسی بچے پر کوئی حد جاری نہیں کی جا سکتی ہے لیکن شریعت اسلامیہ نے بلوغت سے پہلے ایک مسلمان بچے کے بہت سے افعال کو معتبر شمار کیا ہے جس کی تفصیل اصول کی کتابوں میں اہلیت وجوب و اہلیت ادا کی بحثوں میں مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمیز یعنی سات سال کے دور سے لے کر بلوغت تک ایک بچے کا ایمان اور تمام عبادات‘ ادائیگی کے اعتبار سے معتبر شمار ہوں گی۔ ا سی طرح بچے کے وہ افعال کہ جن میں اس کے لیے نفع کا پہلو ہے ‘مثلاً تحفہ ‘ صدقہ یا وصیت کا قبول کرنا‘ صحیح شمار ہوں گے اور بچے کے وہ افعال کہ جن میں اس کے لیے نقصان اور ضرر کا پہلو ہو‘ مثلاً ہبہ کرنا یا صدقہ دیناوغیرہ تو یہ تمام تصرفات صحیح نہ ہوں گے ۔ایک صحیح روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کی ترغیب دلانے کا حکم دیا اور د س سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر سختی کا حکم دیا ہے۔لہذا سات سال یا اس کے بعد کی عمر میں کسی بچے کے ایسے افعال کہ جن میں اس کی دنیا یا آخرت کے اعتبار سے نفع ہو ‘ شرعاً معتبر ہیں ۔لہذا اگر کسی بچے میں سن تمیز کے بعد اجتہادکی باقی وہ شرائط پائی جاتی ہوں کہ جن کا آگے ہم تذکرہ کر رہے ہیں تو اس کا اجتہاد ہمارے خیال میں معتبر ہونا چاہیے۔أئمہ سلف میں کتنے ہی علماء ایسے گزرے ہیں جو بلوغت سے پہلے ہی ضروری علوم شرعیہ میں ر سوخ حاصل کر لیتے تھے اگرچہ آج کل اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
چوتھی شرط
مجتہد کے لیے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ عربی زبان وا سلوب کلام سے واقف ہو کیونکہ قرآن و سنت جو دین اسلام کے ابتدائی مصادر ہیں ‘ عربی زبان میں ہی ہیں ۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’علی المجتھد أن یعرف اللغۃ العربیۃ علی وجہ یتمکن بہ من فھم خطاب العرب‘ ومعانی مفردات کلامھم وأ سالیبھم فی التعبیر‘ إما بال سلیقۃ وإما بالتعلم بأن یتعلم علوم اللغۃ العربیۃ من نحو وصرف وبلاغۃ وأدب ومعان وبیان‘ وإنما کان تعلم اللغۃ العربیۃ علی ھذا الوجہ ضروریا للمجتھد‘ لأن نصوص الشریعۃ وردت بلسان العرب فلا یمکن فھمھا وا ستفادۃ الأحکام منھا إلا بمعرفۃ اللسان
[1] سنن أبی داؤد‘ کتاب الحدود‘ باب فی المجنون یسرق أو یصیب حدا(۴۴۰۱)‘ ۲؍ ۵۴۵۔
[2] إرواء الغلیل : ۲؍ ۵