کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 40
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک ڈاکٹرجو علوم شرعیہ سے ناواقف ہے اور غامدی صاحب کے بقول اجتہاد کرے گا تو کیا اس کا اجتہاد قرآن و سنت کے خلاف نہیں جائے گا؟۔ وہ کتنے ہی مسائل میں محض اپنی عقل سے اجتہاد کرے گاجبکہ وہ مسائل قرآن و سنت میں صریحا ً یا اشارتاً یا ضمناً یا علت کے طریق سے بیان ہو چکے ہوں گے تو کیا قرآن و سنت کی نصوص کے خلاف اجتہاد شرعاًحرام نہیں ہے؟۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اجتہاد محض عقلی رائے پیش کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اجتہاد سے مراد قرآن و سنت کی و سعتوں اورگہرائیوں سے کسی مسئلے میں رہنمائی حاصل کرناہے۔اجتہاد اللہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ کسی انسان کا‘ اور اللہ کے احکامات کا مأخذ قرآن و سنت ہیں نہ کہ انسانی عقل ۔غامدی صاحب کی اصل غلطی یہ ہے کہ وہ بھی معتزلہ کی طرح انسانی عقل و فطرت کو اللہ کے حکم کا مأخذ مانتے ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ مسائل کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے کہ جن میں قرآن و سنت ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے ۔اگر اس مفروضے کو در ست مان بھی لیا جائے تو پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر یا ماہر معاشیات‘ جو قرآ ن و سنت سے ناواقف ہے‘ کو اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ جس مسئلے میں وہ اجتہاد کرنے چلا ہے‘ اس بارے قرآن و سنت واقعتاً خاموش ہیں ۔اگر کوئی ڈاکٹر یا ماہر معاشیات اس مسئلے کا حل یوں نکالتا ہے کہ وہ محض اپنی عقل سے رائے دینے سے پہلے کسی عالم سے پوچھ لے کہ اس مسئلے میں کوئی واضح نص موجود ہے یا نہیں ‘ تو پھر وہ اس عالم کا مقلد ہو گا نہ کہ مجتہدشمار ہو گا۔بہر حال اس قسم کے لایعنی نظریات سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم یہاں یہ بیان کررہے ہیں کہ علمائے سلف نے کسی مجتہد کی اہلیت کے لیے کیا بنیادی شرائط طے کی ہیں ۔ اجتہاد کی شرائط مختلف علمائے اصول نے اجتہاد کی مختلف شرائط بیان کی ہیں ۔ہمارے متجددین عموماً ان شرائط کو نہیں مانتے ہم ذیل میں ان شرائط کے ساتھ ساتھ ان کے عقلی و نقلی دلائل کا ایک تجزیہ اور خلاصہ بھی بیان کر رہے ہیں ۔ پہلی شرط مجتہد کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو‘کیونکہ غیر مسلم چاہے علوم شرعیہ سے کتنا ہی واقف کیوں نہ ہو اس کااجتہاد مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہو گا۔یہ ذہن میں رہے کہ مسلمان ہونے کی شرط اجتہادکی صحت کے پہلو سے نہیں ہے بلکہ اجتہاد کے مسلمانوں کے ہاں مقبول ہونے کے اعتبار سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِ سعْیِہٖ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوْنَ﴾[1] ’’ پس جو بھی کوئی نیک عمل کرے گا بشرطیکہ کہ وہ مومن بھی ہو تو اس شخص کی سعی و جہد کی ناقدری نہ کی جائے گی(یعنی اس کو شرف قبولیت بخش جائے گا)اور بے شک ہم اس کی سعی و جہد کو لکھ رہے ہیں ۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے ایمان کو بطور شرط بیان کیا ہے۔لہذ ااگر ایمان نہ ہو گا تو کوئی بھی عمل ِ صالح مقبول نہ ہو گا اور اجتہادبھی ایک عمل صالح ہی ہے۔ یہ بات در ست ہے کہ ایک غیر مسلم کو کسی جدیدمسئلے میں اجتماعی اجتہاد کے دوران بطور مشیر شریک کیا جا سکتا ہے‘مثلاًمیڈیکل سائن س یا معاشیات سے متعلق کسی مسئلے میں فقہ الواقع کا صحیح علم حاصل کرنے کے لیے کسی غیر مسلم کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اس قسم کے مشورے کے حصول کو اجتہاد نہیں کہتے۔ اجتہاد شرعی حکم کی تلاش یا اس کی تطبیق کا نام ہے جبکہ فقہ الواقع کا علم شرعی حکم کی تطبیق نہیں ہے بلکہ اس کا ایک لازمی پہلو ہے۔ دو سری شرط مجتہد کے لیے دو سری شرط یہ ہے کہ وہ عاقل ہو‘ مجنون یا دیوانہ نہ ہوکیونکہ ایک مجنون کا قول خود اس کے حق میں قابل قبول نہیں ہوتا چہ
[1] الأنبیاء:۲۱: ۹۴