کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 4
انفرادی اجتہاداور اس کا تعارف فصل أول انفرادی اجتہاد کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور أقسام عربی زبان کے اکثر و بیشتر الفاظ کسی نہ کسی سہ حرفی مادے(root word)سے مل کربنتے ہیں ۔لفظ اجتہاد کا مادہ ’جہد‘ ہے ۔ اس مادے سے بننے والے عربی الفاظ میں سے دو لفظ دین اسلام میں بنیادی اصطلاحات کا درجہ رکھتے ہیں ایک اجتہاد اور دو سرا جہاد۔’ اجتہاد‘ باب افتعال سے جبکہ ’ جہاد‘ باب مفاعلہ سے مصدر ہے۔ پہلا لفظ شریعت اسلامیہ کے فکری غلبے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش ا ور سعی و جہد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور دو سرا لفظ دین اسلام کے سیا سی غلبے کی ہر قسم کی جدو جہد کے لیے مستعمل ہے۔ذیل میں ہم ’لفظ‘ جہد کے لغوی معنی کے بارے میں ماہرین لغت کی آراء پیش کر رہے ہیں ۔ لغوی مفہوم لفظ ’اجتہاد‘ کا مادہ ’جہد‘ ہے جو کہ عربی زبان میں بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک ’مشقت‘ اور دو سرا ’ طاقت‘ ہے۔ امام خلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ متوفی ۱۷۵ھ لکھتے ہیں : ’’الجَھْدُ: ما جھد الانسان من مرض‘ أو أمر شاق فھو مجھود والجھد لغۃ بھذا المعنی والجُھْدُ: شیء قلیل یعیش بہ المقل علی جھد العیش والجَھْدُ: بلوغک غایۃ الأمر الذی لا تألو عن الجھد فیہ۔تقول: جھدت جھدی‘ واجتھدت رأیی ونفسی حتی بلغت مجھودی وجھدت فلانا: بلغت مشقتہ‘ وأجھدتہ علی أن یفعل کذا۔‘‘[1] ’’ ’جہد‘ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ انسان کو کوئی بیماری یا سخت کام لاحق ہو اور ا سی سے ’مجہود‘ کا لفظ بھی بنا ہے۔ ’جہد‘ کا لفظ عربی لغت میں ا سی معنی میں ہے ۔ اور ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ ] اس تھوڑی سی چیز کو کہا جاتا ہے جسے ایک مفل س انسان سخت مشقت سے حاصل کرتا ہے اور پھر اس پر اس کی زندگی کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ] سے مراد تیرا کسی ایسے کام کی انتہاء تک پہنچ جانا کہ جس کے لیے تم نے کوئی ک سر نہ اٹھا رکھی ہو‘ جیسا کہ تم کہتے ہو: میں نے خوب کوشش کی اور میں نے اپنی رائے اور اپنی جان کو پوری طرح لگا دیا یہاں تک کہ میں نے اپنی ساری طاقت کھپا دی۔ میں نے فلاں کو تھکا ڈالا یعنی مشقت میں ڈالا اور میں نے فلاں کو فلاں کام پر مجبور کیا۔‘‘ علامہ ابو بکر محمد بن الحسن بن درید الأزدی المعروف بابن درید رحمہ اللہ متوفی ۳۲۱ھ لکھتے ہیں : ’’والجُھْدُ والجَھْدُ لغتان فصیحتان بمعنی واحد بلغ الرجل جھدہ وجھدہ ومجھودہ‘ إذا بلغ أقصی قوتہ وطوقہ وجھدت الرجل‘ إذا حملتہ علی أن یبلغ مجھودہ۔‘‘[2] ’’ ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] اور ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ] دونوں ایک ہی معنی میں فصیح لغتیں ہیں [جیسا کہ کہا جاتا ہے] آدمی اپنی قوت‘ طاقت اور کوشش کو پہنچ گیا یعنی جب وہ اپنی انتہائی قوت اور طاقت کو پہنچ گیا ہو۔‘‘ علامہ أبو منصور محمد بن أحمد أزہری رحمہ اللہ متوفی ۳۷۰ھ لکھتے ہیں : ’’وقال اللیث: الجَھْدُ: ما جھد الانسان من مرض أو أمر شاق فھو مجھود: قال: والجھد لغۃ بھذہ
[1] کتاب العین:ص۱۶۰ [2] جمھرۃ اللغۃ: ۱؍ ۲۲۱