کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 39
فصل دوم
انفرادی اجتہاد کی شرائط‘ دائرہ کار اور شرعی حیثیت
بعض معاصر متجددین کی طرف سے یہ پکار عموماً سامنے آتی رہتی ہے کہ اجتہاد کی شرائط علماء نے خود سے وضع کرلی ہیں اور ان کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ملتا‘ لہٰذا ہر شخص ہی مجتہد ہے۔واقعہ یہ ہے کہ آج اجتہاد کی تعریف کے نام پرکبھی الحاد پیش کیا جاتا ہے تو کبھی اس کی شرائط کا انکار کرتے ہوئے ہر عامی کو مجتہد کے درجے پر فائز کر دیاجاتا ہے اور کبھی اجتہاد کے دائرہ کار کو و سیع کرتے ہوئے نصوص قطعیہ کو بھی اپنے اجتہادات کا تختہ مشق بنایاجاتا ہے۔مغرب کی فکری یلغار کے نتیجے میں مسلمان ا سکالرز کی ایک جماعت نے اہل سنت کے تصور اجتہاد کو مختلف پہلوؤں سے بگاڑنے کی کوشش کی ہے اور مارٹن لوتھر کی تقلید میں اجتہاد کے نام پراسلام کی ایسی تشکیل نو کے نعرے بلند کیے ہیں کہ جس کے بعد اسلام‘ علمائے مغرب کے من گھڑت اور غیر ثابت شدہ نظریات کے لیے قابل قبول ہو جائے۔جناب غامدی صاحب اور ان کے شاگرد سید منظور الحسن صاحب اجتہاد کی شرائط پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ہمارے روایتی علم فقہ میں مجتہد کے لیے کچھ ناگزیر شرائط کا تعین کیا جاتا ہے ۔ان میں سے نمایاں شرائط یہ ہیں :
1۔ مجتہد ماخذ دین کی زبان یعنی عربی سے کما حقہ واقف ہو۔ 2۔ قرآن مجید کاجید عالم ہو۔
3۔ سنت‘ حدیث اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔
4۔ ماضی کے اجتہادی اور فقہی کام پر گہری نظر رکھتا ہو۔ 5۔ صاحب تقویٰ ہو۔
یہ سب شرائط قابل لحاظ ہیں اور ان میں زمانے کی ضروریات کے پیش نظر بعض اضافے بھی کیے جا سکتے ہیں ‘ مگر ہمارے نزدیک اجتہادکے معاملے میں اس نوعیت کی شرائط کو لازم ٹھہرانااور ان کے بغیر کسی اجتہاد کو ناقابل قبول قرار دینا‘ ح سب ذیل پہلوؤں سے نامنا سب ہے : ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کی ہدایت فرماتے ہوئے یا کسی دو سرے موقع پر‘ اس نوعیت کی شرائط کو متعین نہیں فرمایا۔چناچہ دین کے جس معاملے میں آپ نے تحدید نہیں فرمائی ‘ اس میں بغیر ضرورت کے ہمیں کوئی حد بندی نہیں کرنی چاہیے۔دو سرے یہ کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرائط کی بحث بالکل بے معنی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی اجتہادی رائے کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ علم و تقوی کی بنیاد پر نہیں ‘ بلکہ دلیل و ا ستدلال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔دلیل اگر قوی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ بعض مفروضہ شرائط کے پورا نہ ہونے کی بنا پر کسی اجتہاد کورد کر دیا جائے اور اگر دلیل کمزور ہے تو اجتہاد خواہ کی سی ہی جامع الشرائط شخصیت نے کیا ہو‘ ا سے بہر حال ناقابل قبول قرار پانا چاہیے۔تیسرے عین ممکن ہے کہ کسی معاملے میں متعلقہ شعبے کے ماہر کی رائے مذکورہ شرائط پر پورا اترنے والے کی رائے سے زیادہ وقیع ہو۔مثال کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ طب کے کسی معاملے میں ایک ڈاکٹر کا اجتہاد عربی زبان و ادب کے کسی فاضل کے اجتہاد کے مقابلے میں زیادہ قرین حقیقت ہو۔ا سی طرح سود کی تعریف متعین ہو جانے کے بعد اس کے اطلاق کے معاملے میں کسی ماہر معیشت کی رائے کسی عالم دین کی رائے سے زیادہ صائب ہو سکتی ہے ۔ اس بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے کسی طرح کی کوئی قد غن نہیں ہے۔یہ دروازہ ہر مسلمان کے لیے اس کی انفرادی یا اجتماعی حیثیت میں پوری طرح کھلا ہے۔‘‘[1]
واقعہ یہ ہے کہ مجتہد کے لیے اگر ہم وہ شرائط بیان نہ کریں جو علماء و فقہاء نے بیان کی ہیں تو علوم دینیہ سے ناواقف اور جاہل شخص بھی مجتہد کہلائے گا‘ پس عالم دین اور عامی میں فرق کیا ہوا ؟ جب کوئی فرق نہیں ہے تو دونوں مجتہد ہیں اور جب دونوں مجتہد ہیں اور ایک عامی بھی دینی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کر سکتا ہے تو کسی اسلامی معاشرے میں علماء یا علم دین کے حصول کی ضرورت کیا معنی اور وقعت رکھتی ہے؟۔
دو سری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اجتہادکے لیے اصل شرط دلیل کی قوت کو قرار دیا ہے اور جب ایک شخص دلیل یعنی قرآن و سنت وغیرہ ہی سے ناواقف ہو تو وہ اپنے اجتہاد کی بنیاد دلیل پر کیسے رکھے گا؟ کیا دلیل صرف عقل ِمحض کا نام ہے؟۔
[1] ماہنامہ اشراق ‘ اجتہاد‘ جون ۲۰۰۱‘ ص۳۰ ۔۳۱