کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 37
شخص کے مسئلے میں اجتہاد کرے جبکہ اس مسئلے میں اجتہاد اس پر بعینہ لازم ہو اس طرح سے کہ وقت بھی کم ہو تو ایسی صورت میں فوری اجتہاد فرض ہو گا کیونکہ وقت کی تنگی میں اجتہاد نہ کرنا‘ ضرورت کے وقت سے بیان کو مؤخر کرنے کے متقاضی ہو گا اور یہ جائز نہیں ہے۔‘‘
آگے چل کر’ فرض کفایہ‘ اجتہادکے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ ثانیاً: یکون الاجتھاد فرض کفایۃ عندما تنزل حادثۃ بأحد‘ فا ستفتی أحد العلماء‘ فإن الوجوب یکون فرضا علیھم جمیعاً‘وأخصھم بفرضہ‘ المخصوص بال سؤال عنھا‘ فإن أجاب واحد منھم سقط الفرض عن جمیعھم‘ وإن أم سکوا مع ظھور الصواب لھم أثموا‘ وإن أم سکوا مع التبا سہ علیھم عذروا۔‘‘[1]
’’ اجتہاد کی دو سری قسم یہ ہے کہ وہ بعض اوقات فرض کفایہ ہوتا ہے مثلاً جب کسی شخص کو کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ علماء سے اس کے بارے میں فتوی طلب کرتا ہے تو اس مسئلے کا حل بتانا سب علماء پر فرض تھا‘ اور جس عالم سے مسئلہ پوچھا گیا ہے اس پر یہ فرض سب سے زیادہ عائد ہوتا ہے‘ اگر تو کسی ایک عالم نے بھی اس مسئلے کا جواب دے دیا تو سب سے فرض ساقط ہو جائے گااور اگر صحیح رائے جاننے کے باوجود بھی انہوں نے مسئلے کا حل نہ بتایا تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر کسی شبہے کی وجہ سے وہ اجتہاد نہ کر سکے تو معذور سمجھیں جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد ’مندوب‘ اجتہاد کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
’’ ثالثاً یکون الاجتھاد مندوباً إلیہ فی حالتین‘ ھما:الحالۃ الأولی: أن یجتھد العالم قبل نزول الحادثۃ لی سبق إلی معرفۃ حکمھا قبل وقوعھا۔الحالۃ الثانیۃ: أن ی ستفتیہ سائل عن حکم حادثۃ قبل نزولھا۔‘‘[2]
’’ اجتہاد کی تیسری قسم مندوب اجتہاد کی ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ کوئی عالم کسی مسئلے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس کا حکم جاننے کے لیے اجتہاد کرے یا اس کی ایک دو سری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مسئلے کے عملاً واقع ہونے سے پہلے اس کے حکم کے بارے میں کسی مجتہد سے سوال کرے۔‘‘
آخر میں ’حرام‘ اجتہاد کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’رابعاً: یکون الاجتھاد محرماً فی حالتین ھما: الحالۃ الأولی: أن یقع الاجتھاد فی مقابلۃ دلیل قاطع من نص أو إجماع۔الحالۃ الثانیۃ: أن یقع ممن لم تتوفر فیہ شروط المجتھد فیما یجتھد فیہ۔‘‘[3]
’’ اجتہاد کی چوتھی قسم حرا م اجتہاد کی ہے اور اس کی بھی دوصورتیں ہیں ۔پہلی صورت تو یہ ہے کہ کسی قطعی الدلالۃو قطعی الثبوت نص یا اجماع کے بالمقابل اجتہاد کیا جائے ۔ اس کی دو سری صورت یہ ہے کہ وہ شخص اجتہاد کرے کہ جس میں مجتہد فیہ مسئلہ میں اجتہاد کی شرائط موجود نہ ہوں ۔‘‘
٭٭٭
[1] إتحاف ذوی البصائر: ۸؍ ۳۵
[2] أیضاً
[3] أیضاً