کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 36
’’ڈاکٹر معروف الدوالیبی نے اجتہاد کی تین قسمیں بیان کی ہیں ‘ ان میں سے بعض کی طرف امام شاطبی رحمہ اللہ نے بھی ’الموافقات‘ میں اشارہ کیا ہے۔پہلی قسم اجتہاد بیانی ہے اور اس سے مرا د قرآن و سنت کی نصوص میں سے شرعی احکام کے بیان و استنباط میں اجتہاد کرناہے۔ اجتہاد کی دو سری قسم اجتہاد قیا سی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ جن مسائل کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم نہیں ہے‘ ان کو شرعی نصوص پر قیاس کرنا اور پھر ان کا حکم معلوم کرنا۔ اجتہاد کی تیسری قسم ا ستصلاحی اجتہاد ہے اور اس سے مراد بھی یہی ہے کہ ان مسائل‘ کہ جن کے بارے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو ‘ کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے‘استصلاح کے قاعدے کے تحت کوئی رائے دینا۔‘‘ اس تقسیم کو بعض علماء نے اس انداز میں بھی بیان کیا ہے ۔اجتہاد بالنص‘ اجتہادبالقیاس اور اجتہاد بالقواعد العامۃ۔قواعد عامہ سے مراد مصلحت‘ سدر الذرائع‘ عرف اور ا ستصحاب وغیرہ ہیں ۔ گیارہویں تقسیم مجتہد فیہ مسائل کے عقلی و نقلی ہونے کے اعتبار سے اجتہاد کی دو قسمیں بیان کی گئیں ہیں :اجتہاد عقلی اور اجتہاد شرعی۔ڈاکٹروہبہ الزحیلی حفظہ اللہ اس تقسیم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’فقد قسمہ الأ ستاذ الحکیم إلی قسمین:الاجتھاد العقلی: وھو ما کانت الحجیۃ الثابتۃ لمصادرہ عقلیۃ محضۃ‘ غیر قابلۃ للجعل الشرعی‘ کالم ستقلات العقلیۃ‘ وقواعد لزوم دفع الضرر المحتمل‘ وقبح العقاب بلا بیان وغیرھا۔والقسم الثانی: الاجتھاد الشرعی:وھو ما احتاج إلی جعل حجیتہ من الحجج الشرعیۃ ویدخل ضمن ھذا القسم: الاجماع والقیاس والاستحسان والاستصلاح والعرف والا ستصحاب وغیرھا۔‘‘[1] ’’ا ستاذ الحکیم نے اجتہادکو دو قسموں میں تقسیم کیاہے: ایک اجتہاد عقلی ہے اور یہ وہ اجتہاد ہے کہ جس میں عقل ِ محض کی بنا پر کوئی حکم ثابت کیا جائے اور وہ کسی شرعی نص سے م ستفاد نہ ہوجیسا کہ عام عقلی اصول ہیں یا احتمالی ضرر کو دور کرنے کے لیے جن قواعد کو لازمی طور پر وضع کیاگیا ہے یابغیر کسی شرعی نص کے کسی سزا کابرا ہونا وغیرہ۔اجتہاد کی دو سری قسم شرعی اجتہاد کہلاتی ہے اور اس سے مراد وہ اجتہاد ہے کہ جس کی بنیاد شرعی دلائل پر ہواور اس قسم کے تحت اجماع‘ قیا س‘ استحسان‘ ا ستصلاح‘عرف اور ا ستصحاب وغیرہ شامل ہیں ۔‘‘ بارہویں تقسیم اجتہاد کی شرعی حیثیت کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام کی گئی ہیں : فرض عین اجتہاد ‘ فرض کفایہ اجتہاد ‘ مندوب اجتہاد اور حرام اجتہاد۔ ڈاکٹر عبدالکریم بن علی بن محمد نملۃ حفظہ اللہ ’ فرض عین‘ اجتہاد کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’یکون الاجتھاد فرض عین فی حالتین: الحالۃ الأولی: اجتھاد المجتھد فی حق نفسہ فیما نزل بہ‘ لأن المجتھد لا یجوز أن یقلد غیرہ فی حق نفسہ‘ ولا فی حق غیرہ۔الحالۃ الثانیۃ: اجتھاد المجتھد فی حق غیرہ إذا تعین علیہ الحکم فیہ بأن ضاق وقت الحادثۃ فإنہ یجب علی الفور‘ لأن عدم الاجتھاد یقتضی تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ‘ وھو ممنوعاً شرعاً۔‘‘[2] ’’ اجتہاددو صورتوں میں فرض عین ہو گا‘ پہلی صورت تو یہ ہے کہ کسی مجتہد کا اپنے کسی ذاتی مسئلے میں اجتہاد فرض عین ہو گا کیونکہ ایک مجتہد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مجتہد ہوتے ہوئے اپنے یا کسی اور کے مسئلے میں کسی غیر کی تقلید کرے۔دو سری صورت یہ ہے کہ مجتہد کسی اور
[1] أصول الفقہ الإسلامی: ص۱۰۴۲ [2] إتحاف ذوی البصائر:۸؍ ۳۴۔۳۵