کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 35
’’انتفائی اجتہاد سے ہماری مرادیہ ہے کہ کسی مسئلے میں فتوی دینے یا فیصلہ کرنے کے لیے امت مسلمہ کے فقہی ورثے میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنے اور اس رائے کو سلف صالحین سے منقول دو سری آراء پر راجح قرار دینے کے لیے اجتہاد کرنا۔‘‘
’اجتہاد انشائی‘ سے مراد کسی مسئلے میں کوئی ابتدائی یانیا حکم جاری کرنا ہے‘ چاہے وہ مسئلہ قدیم ہو یا جدید۔ لیکن اگر یہ مسئلہ قدیم بھی ہو تو تب بھی اس کے بارے سلف صالحین کا کوئی اجتہادمنقول نہ ہو۔ڈاکٹریو سف قرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ونعنی بالاجتھاد الإنشائی: استنباط حکم جدید فی مسألۃ من المسائل‘ لم یقل بہ أحد من ال سابقین‘ سواء کانت المسألۃ قدیمۃ أم جدیدۃ۔ومعنی ھذا الاجتھاد الانشائی قد یشمل بعض المسائل القدیمۃ بأن یبدو للمجتھد المعاصر فیھا رأی جدید لم ینقل عن علماء السلف ولا حجر علی فضل اللّٰہ تعالی۔والقول الصحیح الذی نرجحہ أن المسألۃ الاجتھادیۃ التی اختلف فیھا الفقھاء ال سابقون علی قولین‘ یجوز للمجتھد فیما بعد أن یحدث قولا ثالثاً‘ وإذا اختلفوا علی ثلاثۃ أقوال‘ یجوز أن یحدث رابعاً‘ وھلم جرا۔‘‘[1]
’’ اجتہادانشائی سے ہماری مراد یہ ہے کہ کسی مسئلے کا ایسانیاحکم معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کرنا کہ جس کے بارے سلف سے کوئی رائے منقول نہ ہو ‘ چاہے وہ مسئلہ قدیم ہو یا جدید ہو‘ لہذا انشائی اجتہاد کا معنی یہ بھی ہے کہ بعض قدیم مسائل میں کوئی معاصر مجتہدایک ایسی نئی رائے پیش کرتا ہے جو کہ سلف سے منقول نہیں ہے تو یہ اجتہاد بھی جائز ہے ۔لہذا جن مسائل میں علمائے سابقین کے دو اقوال ہوں تو ان مسائل قدیمہ میں تیسری رائے دینا جائز ہے۔ا سی طرح جن مسائل میں سلف کی تین آراء ہوں تو ان مسائل میں اجتہاد سے چوتھی رائے پیش کرنا در ست ہے اور ا سی طرح اس سے زائد آراء کا بھی معاملہ ہے۔‘‘
نویں تقسیم
مجتہدین کی تعداد کے اعتبار سے بھی اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ۔ انفرادی اجتہاداور اجتماعی اجتہاد۔ أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد الفردی: ھوکل اجتھاد لم یثبت اتفاق المجتھدین فیہ علی رأی فی المسألۃ۔۔۔الاجتھاد الجماعی: ھو کل اجتھاد اتفق المجتھدون فیہ علی رأی فی المسألۃ۔‘‘[2]
’’فردی اجتہاد سے مراد ہر وہ اجتہاد ہے کہ جس میں کسی مسئلے پر مجتہدین کا اتفاق ثابت نہ ہو۔۔۔جبکہ اجتماعی اجتہاد وہ ہے کہ جس میں کسی مسئلے پر مجتہدین کا اتفاق ہو جائے۔‘‘
د سویں تقسیم
اجتہاد کے طرق و أ سالیب کے اعتبار سے اس کی تین قسمیں ہیں :اجتہاد بیانی‘ اجتہاد قیا سی اور اجتہاد ا ستصلاحی‘ وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :
’’رأی دکتورمعروف الدوالیبی قسمۃ الاجتھادإلی ثلاثہ أنواع‘ أشار الشاطبی فی الموافقات إلی بعضھا۔الاجتھاد البیانی: وذلک لبیان الأحکام الشرعیۃ من نصوص الشارع۔الاجتھاد القیا سی: وذلک لوضع الأحکام الشرعیۃ للوقائع الحادثۃ مما لیس فیھا کتاب ولا سنۃ‘ بالقیاس علی ما فی نصوص الشارع من أحکام۔الاجتھاد الا ستصلاحی: وذلک لوضع الأحکام الشرعیۃ أیضا‘ للوقائع الحادثۃ مما لیس فیھا کتاب ولا سنۃ‘ بالرأی المبنی علی قاعدۃ الا ستصلاح۔‘‘[3]
[1] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص۱۲۶
[2] أصول التشریع الإسلامی: ص۱۱۵۔۱۱۶
[3] أصول الفقہ الإسلامی: ۲؍ ۱۰۴۱