کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 34
’’جن مسائل میں اجتہادکیا جاتا ہے‘ ان کے واقعے ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے اجتہاد کی دو قسمیں ہیں :ان مسائل میں اجتہاد جو وقوع پذیر ہو چکے ہوں اور ان مسائل میں اجتہاد جو ابھی تک واقع نہ ہوئے ہوں ۔(یعنی فرضی مسائل میں اجتہاد کرنا)۔‘‘ دو سری قسم کے اجتہادمیں فقہ حنفی میں ’فقہ تقدیری‘ کے نام سے کافی کام موجود ہے۔اسلامی بینکاری کا مجوزہ اور مشروع طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟۔ اس بارے میں بھی علماء کے کئی ایک بورڈ کام کر رہے ہیں اور یہ بھی پیش آنے والے مسائل میں اجتہاد کی ایک قسم ہے۔ چھٹی تقسیم کسی مسئلے میں مجتہد کی طرف سے کوشش و صلاحیت کھپانے کے اعتبار سے بھی اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ۔ اجتہاد تام اور اجتہاد ناقص۔ڈاکٹرمحمد بن حسین بن الحسن الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ینقسم الاجتھاد بالنظر إلی بذل الو سع فیہ إلی قسمین: اجتھاد تام‘ واجتھاد ناقص‘ فالاجتھاد التام ماکان بذل الو سع فیہ إلی درجۃ یحس فیھا المجتھد من نفسہ العجز عن المزید‘ والاجتھاد الناقص ما لم یکن کذلک‘ فیدخل فیہ النظر المطلق فی الأدلۃ لمعرفۃ الحکم۔‘‘[1] ’’ کسی مسئلے میں اپنی صلاحیت و طاقت کے خرچ کرنے کے اعتبار سے اجتہادکی دو قسمیں ہیں : اجتہاد تام اور اجتہاد ناقص‘ اجتہاد تام سے مراد یہ ہے کہ مجتہد کسی مسئلے میں اس درجے اپنی صلاحیت اور قوت کو کھپا دے کہ اس سے مزید طاقت لگانے سے اس کا نفس عاجز ہوجبکہ اجتہاد ناقص وہ ہے کہ جس میں اس درجے قوت نہ لگائی جائے پس کسی حکم کی معرفت کے لیے دلائل شرعیہ پر سر سری سی نگاہ دو ڑا لینا بھی اس میں داخل ہے۔‘‘ ساتویں تقسیم اجتہاد کے صحیح وغلط ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی دو قسمیں ہیں ۔ اجتہاد صحیح اور اجتہاد فا سد۔ڈاکٹرمحمد بن حسین الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ینقسم الاجتھاد إلی صحیح وفا سد۔فالاجتھاد الصحیح ھو الذی صدر من مجتھد توفرت فیہ شروط الاجتھاد وکان ھذا الاجتھاد فی مسألۃ ی سوغ فیھا الاجتھاد۔أما الاجتھاد الفا سد‘ فھو: الذی صدر من جاھل بالکتاب والسنۃ ولغۃ العرب‘ لم تتوفر فیہ شروط الاجتھاد‘ أو صدر من مجتھد أھل للاجتھاد لکنہ وقع فی غیر موضعہ من المسائل التی لا یصح فیہ الاجتھاد۔‘‘[2] ’’ایک اور پہلو سے اجتہاد کی دوقسمیں اور بھی ہیں : اجتہاد صحیح اور اجتہاد فا سد‘ اجتہاد صحیح سے مراد وہ اجتہاد ہے جو اس مجتہد سے صادر ہوا ہو کہ جس میں اجتہاد کی شرائط پائی جاتی ہوں اور ان مسائل میں یہ اجتہاد جاری ہوا ہو کہ جن میں اجتہاد کرنا جائز ہو جبکہ اجتہاد فا سد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو کسی ایسے شخص نے کیا ہو جو کتاب و سنت اور لغت عرب سے ناواقف ہو اور اس میں اجتہاد کی شرائط بھی نہ پائی جاتی ہوں یا وہ اجتہاد کسی ایسے مجتہد سے ان مسائل میں صادر ہوا ہو کہ جن میں اجتہاد کرنا صحیح نہ ہو اگرچہ وہ مجتہد اجتہاد کا اہل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ آٹھویں تقسیم قدیم و جدیدمسائل‘ کہ جن میں اجتہادہو چکا ہو یا نہ ہوا ہو‘کے اعتبار سے بھی اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ۔اجتہاد انتفائی اور اجتہاد انشائی۔پہلی قسم کے بارے میں ڈاکٹر یو سف قرضاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ونعنی بالاجتھاد الانتقائی: اختیار أحد الآراء المنقولۃ فی تراثنا الفقھی العریض للفتوی أو القضاء بہ‘ ترجیحا لہ علی غیرہ من الآراء والأقوال الأخری۔‘‘[3]
[1] معالم أصول الفقہ عند أھل السنۃ والجماعۃ:ص۴۶۹ [2] أیضاً:ص۴۶۹۔۴۷۰ [3] الاجتھاد فی الشریعۃ الإسلامیۃ: ص ۱۱۴