کتاب: عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 1 - صفحہ 33
’’اجتہاد کی دو سری قسم تنقیح المناط ہے اور اس سے مراد علت کا چھا نٹنا ہے۔ اگر شارع نے کسی حکم کی نسبت اس کے کسی سبب کی طرف کی ہو اور حکم کے ساتھ کچھ ایسے اوصاف ملے ہوئے ہوں کہ جن کی حکم کی طرف اضافت کی کوئی وجہ نہ ہوتو اس حکم کی علت میں ان اوصاف کا اعتبار نہ کرنا لازمی ہو گااور اس حکم میں جو وصف مؤثراور معتبر ہو گا ا سی کو اس حکم کی علت کے طور پر باقی رکھا جائے گا‘ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدو ‘ جس نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر کیا تھا‘کوکفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس اس مثال سے معلوم ہوا کہ اس شخص کا بدو ہونایا عربی ہونایا اس کی بیوی کا جماع کیا ہوا ہونا‘ کفارے کے حکم میں کوئی اثر نہیں رکھتا ہے۔اگر کوئی مسلمان عجمی بھی کسی سے جماع کرتا ہے تو پھر بھی ا سی طرح کفارے کا حکم ہو گا۔اکثر منکرین قیاس نے بھی اجتہادکی اس قسم کا اقرار کیا ہے۔‘‘ آخر میں تیسری قسم ’تخریج المناط‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وتخریج المناط: وھو القیاس المحض‘ وھو أن ینص الشارع علی حکم فی محل‘ ولا یتعرض لمناطہ أصلا‘ کتحریم الربا فی البر‘ فیجتھد المجتھد فی البحث عن علۃ الحکم ومناطہ بطریق من طرق ثبوت العلۃ‘ وھذا النوع ھو الذی وقع فیہ الخلاف المشھور فی حجیۃ القیا س۔‘‘[1] ’’اجتہاد کی تیسری قسم تخریج المناط ہے اور یہ محض قیاس ہے اور وہ یہ ہے کہ شارع کسی جگہ کوئی حکم بیان کریں اور اس حکم کی علت سے کوئی تعرض نہ کریں جیسا کہ گندم میں سود سے منع کیا گیا ہے‘ پس اس قسم میں مجتہد مسالک ِعلت کی روشنی میں اس حکم کی علت تلاش کرے گا۔اجتہاد کی یہی قسم ہے کہ جس کے بارے میں علماء کا اختلاف قیاس کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے پہلو سے ہے ۔‘‘ چوتھی تقسیم مجتہد فیہ مسائل کے اعتبار سے اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ۔جدید اور نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد اور قدیم مسائل میں اجتہاد۔ ڈاکٹرمحمد بن حسین بن الحسن الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ینقسم الاجتھاد بالنظر إلی کون المسائل المجتھد فیھا جدیدۃ أو متقدمۃ إلی قسمین: مسائل لا قول لأحد من العلماء فیھا‘ ومسائل تقدم لبعض العلماء فیھا قول۔فالقسم الأول: وقع فیہ خلاف بین العلماء‘ أما القسم الثانی: فلا خلاف فی جواز الاجتھاد فیہ‘ والصحیح فی القسم الأول الجواز۔‘‘[2] ’’جن مسائل میں اجتہاد کیا جائے‘ ان کے قدیم و جدید ہونے کے اعتبار سے اجتہاد کی دو قسمیں ہیں :اجتہاد کی ایک قسم تو ان مسائل پر مشتمل ہے جن میں کسی بھی عالم کا کوئی قول موجود نہ ہو‘ اور بعض مسائل ایسے ہیں کہ جن میں علمائے سابقہ کا کوئی قول موجود ہو۔پہلی قسم کے اجتہاد میں علماء کے درمیان اختلاف ہے جبکہ دو سر ی قسم میں اجتہاد کے جائز ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ پہلی قسم میں بھی اجتہاد جائز ہے۔‘‘ پانچویں تقسیم مجتہد فیہ مسائل کے واقع ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے بھی اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ۔واقع شدہ مسائل میں اجتہاد اور مستقبل میں پیش آنے والے میں اجتہاد۔ ڈاکٹرمحمد بن حسین بن الحسن الجیزانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ینقسم الاجتھاد أیضا بالنظر إلی المسائل المجتھد فیھا من جھۃ وقوعھا أو عدم وقوعھا إلی قسمین: مسائل واقعۃ نازلۃ‘ ومسائل لم تقع۔‘‘[3]
[1] معالم أصول الفقہ عند أھل السنۃ والجماعۃ:ص۴۶۸ [2] أیضاً [3] أیضاً:ص۴۶۹